ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر "رضا ملک زادہ" نے جمعہ کے روز ارنا نمائندے کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس پروجیکٹ کے پری کلینیکل مرحلے میں ہیں اور ابھی تک انسانی طبی جانچ کے مرحلے میں داخل نہیں ہوئے ہیں۔
انہوں نے کرونا ویکسین کی تیاری کیلئے طویل عرصے کے کام کی ضرورت کے سوال کے جواب میں کہا کہ تحقیقی سرگرمیوں کے عین وقت کا اعلان نہیں کیا جاسکتا، لیکن ہمارے محققین اس کو حاصل کرنے کیلئے سخت کوشش کر رہے ہیں؛ دوسرے لفظوں میں، ہمیں یہ ویکسین بنانے کے عمل کو کامیابی کیساتھ مکمل کرنے کیلئے مزید کوششیں کرنی ہوں گی۔
ملک زادہ نے ایران میں کرونا وائرس کی تیاری کا عمل کچھ سست کیوں ہے، کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے پاس کچھ ضروری انفراسٹرکچر نہیں ہے اور ہم انہیں ملک میں بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ ہم نے کرونا ویکسین بنانے کے علم کو حاصل کیا ہے لیکن انفراسٹرکچر کی تعمیر بھی ضروری ہے جس کی ہمیں امید ہے کہ جلد سے جلد اسے حاصل کیا جائے۔
انہوں نے ایک امریکی کمپنی میں تیار کردہ کرونا ویکسین پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس ویکسین کی حتمی منظوری دی جائے تو انسان کوویڈ-19 پر قابو پاسکتا ہے۔
ملک زادہ کا کہنا ہے کہ کرونا ویکسین کی تیاری کے بعد اس کی بڑے پیمانے پر پیداوار ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس پر قابو پانا ضروری ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس پروڈکٹ کو استعمال کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھی زمین کے سارے باشندے کرونا ویکسین کے منتظر ہیں اور اسے اس حد تک تیار کرنا ہے کہ ہر کوئی اسے استعمال کر سکے، یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو صرف ایک ہی ملک کے بس میں نہیں ہے۔
ملک زادہ نے کہا کہ عام طور پر ان معاملات میں بین الاقوامی تعاون تشکیل پایا جاتا ہے اور بھارت، برازیل، چین اور یہاں تک کہ ایران جیسے ممالک کو اپنے ملک میں ویکسین تیار کرنے کیلئے اس منصوبے میں داخل ہونے کا موقع ملتا ہے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ