9 نومبر، 2020، 8:54 PM
Journalist ID: 1917
News ID: 84104672
T T
0 Persons
ظریف کا مختلف دورہ پاکستان؛ تعلقات دو پڑوسی ملکوں سے کہیں زیادہ آگے

تہران، ارنا- اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ کل مطابق 10 نومبر کو پاکستان کا دورہ کریں گے؛ اس دورے کو موجودہ علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال کی وجہ سے انتہائی اہمیت حاصل ہے اور یہ ان کے دیگر دوروں سے بہت مختلف ہے۔

"محمد جواد ظریف" نے آج بروز اتوار اپنے دورے پاکستان سے پہلے "یوم اقبال" کو تمام پاکستانیوں پر مبارکباد دے دی۔

انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ علامہ اقبال فخر عالم اسلام اور بین الاقوامی شاعر و مفکر کا درجہ رکھتے ہیں اور اتحاد بین المسلمین کے لیے جو دردِ دل رکھتے تھے وہ آج عالم اسلام کے لیے درپیش تشویش ہے۔

دورے پاکستان سے پہلے ظریف کا اس ٹوئٹر پیغام، پاکستانی قوم کیساتھ ایرانی قوم کی دوہری دوستی کا پیغام ہے؛ ایران کا سب سے زیادہ آباد اور طاقتور پڑوسی؛ اسلامی جمہوریہ کا اسٹریٹجک شراکت دار جس میں تجارتی اور معاشی تعلقات کو مضبوط بنانے کی بڑی صلاحیت ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ منگل کے روز اپنے پاکستانی ہم منصب "شاہ محمود قریشی" سمیت وزیراعظم "عمران خان" سے الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے نقطہ نظر سے تازہ ترین علاقائی اور بین الاقوامی پیشرفت کی روشنی میں ایران اور اس کے ہمسایہ ممالک کے مابین جامع تعاون کو مستحکم کرنا ایک بنیادی ضرورت ہے اور تہران - اسلام آباد تعلقات اس اصول سے مستثنی نہیں ہیں۔

اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کے مابین دوطرفہ اور دوستانہ تعلقات کو کبھی بھی علاقائی معاملات سے نہیں منسلک کیا گیا ہے اور دونوں ممالک نے دو طرفہ تعلقات کو کبھی بھی تیسری پارٹی کے ذریعہ ٹرانس علاقائی عوامل سے متاثر ہوئے نہیں ہونے دیا ہے۔

لیکن بین الاقوامی میدان میں حالیہ واقعات بشمول ایک طرف واشنگٹن میں یکطرفہ رویہ اپنانے والی  اور پابندیوں کے نشے میں دھت حکومت کا خاتمہ اور دوسری طرف اسلام آباد- واشنگٹن تعلقات کی نوعیت کی وجہ سے ایرانی وزیر خارجہ کے کل کا دورہ پاکستان، ان کے دیگر دوروں سے الگ اور مختلف ہوگا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی کی صدرات کے دوران 10 بار کیلئے پاکستان کا دورہ کیا ہے۔

 رپورٹ کے مطابق، جنوری 1985 میں ایران کے اس وقت کے صدر کے طور پر حضرت آیت اللہ خامنہ ای کا پاکستان کا تاریخی دورہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک ایران تعلقات، دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان محض تعلقات سے بالاتر ہے؛ پاکستانی عوام نے اس دورے کا شاندار اور مثالی خیر مقدم کیا۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے دورے پاکستان نے پاکستانی عوام کے دل و جان پر بہت گہرا اثر پڑا۔

تہران اور اسلام آباد کے مابین اسٹریٹجک تعلقات کی اہمیت سے متعلق میں ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ایران پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں پاکستان کی آزادی کو تسلیم کیا اور اس کے بدلے میں یہ پاکستان ہی تھا جو 1978 میں اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کو تسلیم کیا۔

اسلامی انقلاب کی فتح کے دوران اور اس کے بعد دونوں دوست ممالک کے مابین تعلقات ہمیشہ دوستی، باہمی احترام اور اعتماد پر قائم رہے ہیں اور اگر چہ سرحدوں میں بعض دشمن عناصر اور انتہاپسند لوگ، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں تا ہم لیکن دونوں فریقین نے تعلقات کو برقرار رکھنے اور مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ہمیشہ بات چیت کے ذریعے ان امور پر قابو پالیا ہے۔

لیکن، آج دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات مطلوبہ سطح پر نہیں ہیں؛ ان دونوں ملکوں کی مجموعی آبادی 300 ملین سے زیادہ ہے اور تجارتی اور معاشی تعلقات میں اضافے کیلئے دونوں ملکوں میں بڑی صلاحتیں موجود ہیں۔

توانائی، صنعت، زراعت، تیل اور پیٹرو کیمیکلز، ڈیری کی مصنوعات، کھیلوں اور طبی سامان، تعلیمی تعاون اور طلبا کے تبادلے، سیاحت، تکنیکی اور انجینئرنگ خدمات وغیرہ کے شعبوں میں ایران اور پاکستان کی باہمی اور تکمیلی صلاحیتوں  اتنی زیادہ ہیں کہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر ان صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے تو، ایران اور پاکستان کو دو تکمیل کرنے والے ممالک کی حیثیت سے، مختلف شعبوں میں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے دیگر ممالک کی کم سے کم ضرورت ہوگی۔

اس کے علاوہ چابہار اور گوادر بندرگاہوں کی ترقی ایک بہت بڑی تکمیلی صلاحیت ہے جو اگر ہم قریب سے اور منفی مسابقت کے احساس کے بغیر دیکھے تو دونوں ممالک اور خطے کی ترقی کے لئے ایک بہت ہی سازگار میدان ثابت ہوسکتی ہے۔

پاکستان اور ایران کے درمیان بے پناہ صلاحیتوں کے پیش نظر دونوں ملکوں کے درمیان اڑھائی ارب ڈالر کا تجارتی حجم مناسب نہیں ہے لہذا تجارتی تعلقات کا فروغ ایک ایسا مسئلہ جس پر خصوصی توجہ دینی کی ضرورت ہے۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .