یہ بات بشار الجعفری نے جمعہ کے روز ارنا کے نمائندے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے مزید کہا کہ جیسا کہ جانتے ہیں جمعرات کی شام دو امریکی لڑاکا طیاروں نے شامی فضائی حدود میں ایرانی مسافر طیارے کے راستے کو روکنے کی کوشش کی جبکہ امریکی حکام کا دعوی ہے کہ اس ملک میں ان کی موجودگی داعش سے لڑنا ہے۔ ان دنوں وہ دوسری قوموں کو دھمکی دینے کی کوشش کیوں کررہے ہیں؟
شام میں امریکی فوجی موجودگی سراسر غیر قانونی ہے۔ بین الاقوامی قوانین پر ان کی خلاف ورزی کی تصدیق ہوگئی ہے۔ بدقسمتی سے یہ پہلی مرتبہ نہیں جب انہوں نے ایرانی مسافر طیاروں کو دھمکی دی ہے۔ انہوں نے 3 جولائی 1988 کو ایک بار پھر خلیج فارس میں ایک ایرانی مسافر طیارے پر میزائل حملہ کر کے تباہ کردیا جس کے نتیجے میں 290 مسافر شہید ہوگئے۔
الجعفری نے کہا کہ اس واقعے کے ملوث عناصر کے خلاف سنجیدگی سے اقدام کیا جانا چاہیے
ایرانی ایئر لائن ماہان ایئر کی پرواز نمبر ’’گیارہ باون‘‘ جمعرات کی شام، تہران کے امام خمینی ایئر پورٹ سے بیروت کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ ماہان ایئر کی مذکورہ پرواز بین الاقوامی فضائی حدود میں سفر کرتے ہوئے شامی حدود میں داخل ہوئی جہاں دو امریکی جنگی ایف۔15 طیاروں نے اچانک اس کا راستہ روکنے کی خطرناک طریقے سے کوشش کی تاہم ایرانی پائلٹ نے ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے طیارے کی اونچائی کم کی اور اس نے جہاز کو بڑے حادثے سے بچا لیا۔ مگر پائلٹ کے اس ہنگامی عمل کے سبب طیارے کو غیر معمولی جھٹکے لگے اور نتیجے میں متعدد عملے اور مسافر زخمی ہوئے۔
ماہان ایئر لائن کی پرواز نے سیکورٹی کے حوالے سے اطمینان حاصل ہوجانے کے بعد اپنا سفر جاری رکھا اور بیروت ایئر پورٹ پر مسافروں کو اتارنے کے بعد جمعے کی صبح وہ تہران کے امام خمینی انٹرنیشنل ایئر پورٹ واپس پہنچ گئی۔
قابل ذکر ہے ایرانی ایوی ایشن تنظیم نے گزشتہ روز ایرانی مسافر بردار طیارے پر امریکی لڑاکا طیاروں کی جارحیت پر آئی سے اے او کا احتجاج کیا۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے بھی اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو لکھے گئے خط میں ایرانی مسافر بردار طیارے پر امریکی دہمکی کیلیے جلد ہی اپنے احتجاج کا اعلان کریں گے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ