اس امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بین الاقوامی میڈیا کے صحافیوں کو بتایا کہ ویانا میں ہونے والے مذاکرات کا آخری دور اب تک کا سب سے شدید اور گہرا تھا۔ ہم نے اختلافات کو کم کرنے اور کلیدی ترجیحات تک محدود کرنے میں پیش رفت کی ہے۔ اس لیے اب سیاسی فیصلوں کا وقت آگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم آخری مراحل میں ہیں، ایران کی جوہری پیشرفت کی رفتار کے پیش نظر ہمارے پاس معاہدے تک پہنچنے کے لیے صرف چند ہفتے باقی ہیں۔
امریکی اہلکار نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ کوئی خطرہ یا جعلی ڈیڈ لائن نہیں ہے ۔ ایران ایک طویل عرصے سے جانتا ہے کہ ہم آخری لمحے کے قریب پہنچ رہے ہیں، جس کے بعد اب ہم جوہری معاہدے میں واپس جانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، کیونکہ اس وقت کے معاہدے میں وہ قدر نہیں ہوگی جس پر ہم نے بات چیت کی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے سینیئر اہلکار نےجوہری معاہدے میں واپسی کی امید ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بائیڈن نے واضح کیا ہے کہ وہ اس معاہدے میں واپس آنے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری سیاسی فیصلے کرنے کے لیے تیار ہیں۔
زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسیوں کی ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ دوسری صورت میں ہم مختلف راستہ اپنائیں گے اور اقتصادی، سفارتی اور دیگر دباؤ کا حوالہ دیا۔
امریکی اہلکار نے ایران کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے واشنگٹن کی خواہش کو دہراتے ہوئے کہا کہ محدود وقت کے پیش نظر براہ راست مذاکرات مذاکراتی عمل کے لیے بہت سود مند ثابت ہوں گے۔
امریکی عہدیدار نے مزید دعویٰ کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایران کوئی فیصلہ کرے اور جوہری معاہدے میں باہمی واپسی کے لیے ضروری فیصلے لینے کے لیے اپنی تیاری کو ظاہر کرے۔
ویانا مذاکرات کا آٹھواں دور 27 دسمبر 2021 کو شروع ہوا۔ وفود کی اکثریت کی رائے ہے کہ بعض معاملات اور سیاسی فیصلہ سازی پر پیچیدگیوں کے باوجود مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں۔
مغربی فریقوں نے ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے بے بنیاد ڈیڈ لائن دینے کی کوشش کی، لیکن ایرانی مذاکرات کار دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے ثابت قدم رہے، اس بات پر زور دیا کہ اگر دوسرے فریق ایران کے خلاف غیر قانونی پابندیاں ہٹانے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو تہران ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے تیار ہے۔ لہذا، کسی حتمی اتفاق رائے تک پہنچنا کم سے کم وقت میں ممکن ہو سکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ