29 نومبر، 2021، 7:20 PM
Journalist ID: 1917
News ID: 84559905
T T
0 Persons
ایران کیخلاف عائد پابندیوں کو اٹھانے کے ویانا مذاکرات

تہران، ارنا- اسلامی جمہوریہ ایران، جوہری معاہدے سے متعلق مغربی ممالک کی وعدہ خلافی کے باجود ایک بار پھر ملک کیخلاف یکطرفہ اور غیرقانونی پابندیوں کی منسوخی کے مقصد سے 1+4 گروپ کیساتھ نیک نیتی سے "اچھا معاہدہ" کے حصول سے نتیجہ خیز مذاکرات میں حصہ لینے پر تیار ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ "حسین امیر عبداللہیان"؛

ویانا میں چھ مرحلے کے گہرے مذاکرات کے بعد جو امریکی لالچ کی وجہ سے کامیابی حاصل نہیں ہوئی؛ اب ہم نئے مذاکرات کے آغاز میں ہیں۔ ان مذاکرات کا اصل مقصد ایرانی عوام کے حقوق کی فراہمی اور ملک کیخلاف پابندیوں کی مکمل منسوخی ہے۔ وہ پابندیاں جو یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے سے امریکی علیحدگی کے بعد واشنگٹن کیجانب سے ایران کیخلاف لگائی گئیں۔

امریکہ 8 مئی 2018 کو یکطرفہ طور پر ایران جوہری معاہد سے علیحدہ ہوگیا؛ ایک ایسا اقدام جس کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی اور اسے غیر قانونی قرار دیا گیا۔

ایک بین الاقوامی اتفاق رائے ہے کہ امریکہ کی طرف سے اس طرح کے غیر قانونی اقدامات بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی مکمل خلاف ورزی ہیں اور ان کا مقصد کثیرالجہتی کو نقصان پہنچانا ہے جو بین الاقوامی امن و سلامتی کیلئے بہت بڑا خطرہ ہے۔

امریکہ میں نئی حکومت برسرکار آنے کے باجود، ایران کیخلاف پابندیاں نہ صرف نہیں ہٹائی گئیں بلکہ پابندیاں اٹھانے کی پالیسی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

یہ بالکل واضح ہے کہ ان امریکی اقدامات کا مقصد، ایران، جوہری معاہدے کے دیگر ارکان اور عالمی برادری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 میں درج حقوق سے مستفید ہونے سے روکنا ہے۔

بلاشبہ جوہری معاہدے کے تین یورپی ممالک کی حکومتوں نے اس حقیقت کے باوجود کہ امریکی نقطہ نظر غیر قانونی اور ناقابل قبول ہے، عملی طور پر اپنی خاموشی اور بے عملی کیساتھ اس کا ساتھ دیا ہے۔

امریکہ کے تخریبی اقدامات اور تین یورپی ممالک کے تعاون نے جوہری معاہدے کو بے اثر کر دیا ہے اور ایران کیلئے اس معاہدے کے تمام اقتصادی فوائد کو تباہ کر دیا ہے؛ یہ گزشتہ چند سالوں کی تلخ حقیقتیں ہیں جو مستقبل کیلئے چراغ راہ بننا ہوگا۔

موجودہ امریکی انتظامیہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے تباہ کن انداز کے تسلسل نے یہ سنگین سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا واقعی امریکی انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا عزم رکھتی ہے اور کیا وہ اپنی سابقہ ​​ناکام پالیسیوں کو چھوڑنے پر تیار ہے؟ حالیہ مہینوں میں امریکی نقطہ نظر اور اقدامات کے پیش نظر اس سوال کا جواب سوال دشوار نہیں لگتا۔

کوئی بھی ایران کی سنجیدگی اور نیک نیتی پر اپنے مکمل وعدوں کی پاسداری پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔ ایران نے امریکہ کی غیر قانونی علیدگی اور پابندیوں کے نفاذ کے بعد نیک نیتی کے ساتھ اپنے کیے گئے وعدوں پر عدم تمعیل سے انکار کر دیا ہے۔

اور جوہری معاہدے کے کوآرڈینیٹر کے طور یورپی یونین اور اس معاہدے کے دیگر اراکین کی درخواست پر اس نے جوہری معاہدے کے فریم ورک کے اندر اپنی ذمہ داریوں کو روکنے کا سہارا نہیں لیا تا کہ جوہری معاہدے کے دیگر ارکان، امریکی علیحدگی سے پیدا ہونے والے منفی حالات کا ازالہ کر سکیں؛ تاہم، اس غیر تعمیری صورت حال کے تسلسل کو دیکھتے ہوئے اور ایک سال کے اسٹریٹجک صبر کے بعد، امریکی پابندیوں میں اضافے اور تین یورپی ممالک کیجانب سے اپنے وعدوں کی عدم تعمیل کی وجہ سے، ایران کے پاس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے آرٹیکل 26 اور 36 کے تحت اپنے حقوق استعمال کرنے اور 8 مئی 2019 سے مرحلہ وار اپنی ذمہ داریوں کے کچھ حصے پر عمل درآمد کو معطل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔

صورت حال میں کوئی تبدیلی نہ ہونے اور جوہری معاہدے کے دیگر فریقین کیجانب سے موثر کارروائی نہ کرنے اور ان کے افسوسناک کارنامہ کی وجہ سے ایران کی اسلامی مشاورتی اسمبلی نے 2 دسمبر 2020 کو "پابندیوں کے خاتمے اور ایرانی قوم کے مفادات کے تحفظ کے لیے اسٹریٹجک ایکشن پلان" کی منظوری دی۔

اس  قانون نے حکومت کو اس بات کا پابند کردیا کہ اگر جوہری معاہدے کے ارکان نے اپنی ذمہ داریوں کو نہ نبھانے کا رویہ جاری رکھا تو جوہری معاہدے کے تحت، ایران کی تمام رضاکارانہ ذمہ داریوں کے نفاذ کو بتدریج معطل کر دے۔ لیکن اگر وہ اپنی ذمہ داریوں پر پوار اتریں تو ایران بھی اپنے کیے گئے وعدوں پر پورا عمل کرے گا۔

اسلامی جمہوریہ ایران، جوہری معاہدے سے متعلق مغربی ممالک کی وعدہ خلافی کے باجود ایک بار پھر ملک کیخلاف یکطرفہ اور غیرقانونی پابندیوں کی منسوخی کے مقصد سے 1+4 گروپ کیساتھ نیک نیتی سے "اچھا معاہدہ" کے حصول سے نتیجہ خیز مذاکرات میں حصہ لینے پر تیار ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران ایران اس حوالے سے "نیک نیتی" اور سنجیدہ عزم رکھتا ہے اور ویانا میں ایک اچھے معاہدے تک پہنچنے کیلئے پختہ عزم رکھتا ہے۔

اس عمل کے تناظر میں ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ موجودہ حالات کی اصل وجہ امریکہ ہے۔؛پچھلے چار سالوں سے، وائٹ ہاؤس نے جوہری معاہدے کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور یہ ایران ہی تھا جس نے اس معاہدے کو زندہ رکھنے کی پوری کوشش کی۔ مذاکرات کے پچھلے چھ دور میں جو بات ایران پر واضح ہو چکی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ اب بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکا کہ جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد ایران کیخلاف عائد کی گئی پابندیوں کی منسوخی کے بغیر، اس معاہدے میں واپسی کا امکان نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 تمام رکن ممالک سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ جوہری معاہدے پر عمل درآمد کی حمایت کیلئے مناسب اقدامات اٹھائیں؛ مثال کے طور پر، جوہری معاہدے اور اس قرارداد میں موجود ایگزیکٹو پلان کے مطابق مناسب اقدامات کرتے ہوئے، ایسے اقدامات سے باز رہیں جو جوہری معاہدے کے تحت ذمہ داریوں کے نفاذ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

ان مذاکرات کا اصل مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کیساتھ تجارتی تعلقات اور مستحکم اقتصادی تعاون کو معمول پر لانے کے مقصد کیساتھ جوہری معاہدے کا مکمل اور موثر نفاذ ہونا ہوگا؛ ظاہر ہے کہ جوہری معاہدے میں واپسی کیلئے ایران کو تمام پابندیوں کے خاتمے سے پوری طرح مستفید ہونا ہوگا؛ اگر وہ ضمانتیں فراہم کی جائیں، نقصانات کا جائزہ لیا جائے اور پابندیوں کو موثر اور قابل تصدیق ہٹایا جائے تو ایران بھی اپنے کیے گئے وعدوں پر پورا اترنے پر تیار ہے۔

جوہری معاہدے میں امریکہ کی ممکنہ واپسی ہمارے لیے اس وقت تک سود مند نہیں ہوگی جب تک اس بات کی ضمانت نہیں دی جاتی کہ ماضی کا تلخ تجربہ نہیں دہرایا جائے گا اور ایران کے اقتصادی شراکت دار اعتماد کیساتھ ایران سے مستحکم اور پریشانی کے بغیر اقتصادی تعاون کر سکتے ہیں۔

ان مذاکرات میں جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ ایران اچھے معاہدے تک پہنچنے کے لیے نیک نیتی کیساتھ مذاکرات کرے گا لیکن وہ جوہری معاہدے سے آگے کسی درخواست کو قبول نہیں کرے گا اور اسلامی جمہوریہ ایران جوہری معاہدے سے آگے کے مسائل پر مذاکرات میں داخل نہیں ہوگا۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .