ان خیالات کا اظہار پاکستان کی نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز کے سیاسی اور بین الاقوامی تعلقات کے شعبے کی خاتون سربراہ ڈاکٹر "رضوانہ کریم عباسی" نے بدھ کے روز ارنا نمائندے کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک 25 سالہ جامع تعاون منصوبے کے فریم ورک میں تہران اور بیجنگ کی شراکت سے چین کے ون بیلٹ- ون روڈ منصوبے کی حکمت عملی کے تحت علاقائی تعاون کی تقویت ہوگی۔
خاتون پاکستانی پروفیسر نے کہا کہ ایران اور چین کے مابین ایک جامع منصوبے پر دستخط کرنے سے خطے پر وسیع اور مستحکم اثر پڑے گا، جس سے امریکی اثر و رسوخ کم ہوگا۔
عباسی نے کہا کہ یہ ایک معمولی منصوبہ نہیں ہے کیونکہ چین ایران میں سیکڑوں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے جس سے نہ صرف اسلامی جمہوریہ کی معاشی صورتحال مضبوط ہوگی بلکہ علاقائی تعلقات کے ذریعے علاقائی معیشت کو بھی ترقی ملے گی؛ کیونکہ یہ تعان منصوبہ ون بیلٹ- ون روڈ پروجیکٹ میں تہران کی شرکت کی سطح میں بھی اضافہ کرتا ہے؛ وہ انفراسٹرکچر پروجیکٹس جو مشرقی ایشیاء سے لے کر یورپ تک پھیلا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اکیسوین صدی میں ایران چین اقتصادی شراکت داری در اصل ایشیا سے تعلق رکھتی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چین کا عروج ایک حقیقت ہے اور دوسری طرف، اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکی پابندیوں اور حتی کہ پابندیوں کے بعد کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک مضبوط اقتصادی پروگرام تیار کیا ہے۔
پاکستانی پروفیسر نے ایران اور چین کے مابین 25 سالہ تعاون کے جامع پروگرام کو پاکستان کے مفاد میں قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پاکستان اور چین کے مشترکہ اقتصادی راہداری منصوبے "سی پیک" کو آگے بڑھانے کے طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ اسلام آباد، ایران اور چین دونوں کے ساتھ خوشگوار اور مضبوط تعلقات رکھتے ہیں، سی پیک پروجیکٹ، ایران اور چین کے جامع تعاون منصوبے کیساتھ تینوں ممالک کے مابین تعلقات کو مزید تقویت دینے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔
عباسی نے علاقائی تعاون کو غربت، انتہاپسندی اور دہشتگردی سے نمٹنے کا بہتری طریقہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ایران، چین اور پاکستان کے مابین سہ فریقی توانائی راہداری کا قیام مستقبل قریب میں ایک حقیقت بن جائے گا۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ