یہ بات محمد جواد ظریف نے منگل کے روز ماسکو کے ہوائی اڈے پہنچنے کے موقع پر صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے بتایا کہ ایران اور روس کے تعلقات دو ہمسایہ ممالک کی حیثیت سے اسٹریٹجک ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مشاورت کی ضرورت ہے اور موجودہ وقت میں خصوصی بین الاقوامی صورتحال اس ضرورت کو دوگنا کر دے گی۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور کچھ مغربی ممالک عالمی جوہری ادارے کے بورڈ آف گورنرز میں اور سلامتی کونسل میں بھی بین الاقوامی قوانین اور ضوابط کو درہم برہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ظریف نے بین الاقوامی معاہدوں سے امریکی کی علیحدگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے اس طرح کے اقدام کا آخری کیس عالمی صحت ادارے کے بارے میں تھا جو یہ تنظیم انتہائی ماہر ہے اور دنیا کے تمام ممالک اس کے ساتھ متحرک تعلقات رکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ لیکن امریکہ نے اپنی اندرونی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے تنظیم کے ساتھ سیاسی گفتگو کی ہے اور ہمیں امریکہ کی اس پالیسی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا۔
اسلحے کی پابندیوں میں توسیع کے لئے امریکی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے ظریف نے کہاکہ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 اور جوہری معاہدے کا ایک اہم جزو ہے اور جوہری معاہدے میں حاصل کی جانے والی وہ کامیابیاں جس وقت میں امریکی حکام نے قبول کرلیا لیکن امریکی حکومت کی تبدیلی کے ساتھ واشنگٹن نے اپنے وعدوں کو انکار کردیا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اس مسئلے پر ایران، چین اور روس کا مشترکہ موقف ہے اور اس حوالے سے یورپیوں کی کوششیں کس حد تک مددکار ثابت ہوئیں لیکن وہ امریکہ کے خلاف آزادانہ پالیسی پر عمل نہیں کرسکے لہذا ہمیں مشاورت جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
ظریف نے کہا کہ ایران روس تعلقات ان امور تک ہی محدود نہیں ہیں اور دونوں ممالک کے مابین معاشی تعاون جاری ہے اور ایران میں روسی ٹھیکیداروں کی شراکت سے مشترکہ معاشی منصوبے لاگو ہو رہے ہیں۔
انہوں نے علاقائی سطح میں ایران اور روس کے درمیان تعاون کا ذکر کرتے ہوئے دونوں ممالک شام کے معاملے پر تعاون کر رہے ہیں اور شام کے مسئلے میں اس ملک کے کچھ علاقوں میں دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے آستانہ کے سربراہی اجلاس کو منعقد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اس مسئلے پر ایران، چین اور روس کا مشترکہ موقف ہے اور اس حوالے سے یورپیوں کی کوششیں کس حد تک مددکار ثابت ہوئیں لیکن وہ امریکہ کے خلاف آزادانہ پالیسی پر عمل نہیں کرسکے لہذا ہمیں مشاورت جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
ظریف نے کہا کہ ایران روس تعلقات ان امور تک ہی محدود نہیں ہیں اور دونوں ممالک کے مابین معاشی تعاون جاری ہے اور ایران میں روسی ٹھیکیداروں کی شراکت سے مشترکہ معاشی منصوبے لاگو ہو رہے ہیں۔
انہوں نے علاقائی سطح میں ایران اور روس کے درمیان تعاون کا ذکر کرتے ہوئے دونوں ممالک شام کے معاملے پر تعاون کر رہے ہیں اور شام کے مسئلے میں ، دہشت گردوں کی سرگرمیوں کے سلسلے میں اس ملک کے کچھ علاقوں کی سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لئے آستانہ کے سربراہی اجلاس کو منعقد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
ایرانی وزیر نے کہا کہ یمن اور افغانستان کے مسائل ایسے مسائل ہیں جن میں باہمی تعاون اور اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کرونا کے خاتمے کے بعد سرحدوں کے کھلنے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس موضوع کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ کرونا کے دوران میں ایران اور روس کے مابین تجارت کا سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آستانہ کا سربراہی اجلاس جلد ازجلد منعقد ہوگا۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ