IRNAکے خارجہ پالیسی کے نامہ نگار کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے آج صبح پریس کانفرنس میں کہا کہ سب سے اہم پیش رفت غزہ کے بارے میں ایران کی تجویز پر جدہ میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس تھا۔ غزہ کے لوگوں کو زبردستی ان کے آبائی وطن سے بے گھر کر کے ہمسایہ ممالک منتقل کرنے کی سازش کے حوالے سے اس اجلاس کے موقع پر بعض اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ تعمیری بات چیت ہوئی۔
IRNA کے اس سوال کے جواب میں کہ آیا ایران کو امریکی صدر کا خط موصول ہوا ہے، بقائی نے کہا کہ "نہیں، کوئی خط موصول نہیں ہوا ہے۔
سوئٹزرلینڈ کے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی دستاویزات کے محافظ کے طور ذمہ داری کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں، وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اس حوالے سے سربراہی اجلاس 7 مارچ کو منعقد ہونا تھا، اور اس کا بنیادی مقصد ان دستاویزات کے پابند اراکین کی طرف سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں اور غزہ میں بین الاقوامی انسانی قانون کی دفعات کی توثیق کرنا تھا۔ یہ درخواست پوری عالمی برادری کے مطالبے کے طور پر اس قرارداد میں شامل کی گئی تھی۔ بین الاقوامی عدالت انصاف کے ایک مشاورتی اجلاس میں بھی یہ مسئلہ اٹھایا گیا تھا اور حالیہ مہینوں میں اس اجلاس کے انعقاد کے لیے خاص طور پر جنیوا میں اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی طرف سے تفصیلی مشاورت کی گئی ہے۔
بقائی نے کہا کہ ہمیں بہت افسوس اور حیرت ہوئی کہ سوئٹزرلینڈ نے بالآخر اس سربراہی اجلاس کے انعقاد کا فیصلہ نہیں کیا، اور یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ایک تھا جس پر حالیہ سربراہی اجلاس میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ نے بھی اس اجلاس کے انعقاد میں ناکامی پر افسوس کا اظہار کیا۔ ہم کوئی فیصلہ نہیں دے رہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 2 سالوں میں بین الاقوامی انسانی قانون کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہوئی ہیں، لیکن خود کو اس معاملے کا ذمہ دار سمجھنے والے فریقین کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
شام کی صورتحال کے بارے میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ حالیہ دنوں میں شام کے مختلف علاقوں بالخصوص مغربی ساحل پر افسوسناک اور المناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ہمیں ان علاقوں میں عدم تحفظ، تشدد اور یرغمال بنائے جانے کی خبروں اور اطلاعات پر گہری تشویش ہے۔
اس طرح کے اقدامات کی سخت مذمت کرتے ہوئے، بقائی نے کہا کہ فوجی اہلکاروں پر تشدد، قتل اور حملے جیسی کسی بھی کارروائی کی مذمت کی جاتی ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ علوی، عیسائی، دروزی اور دیگر اقلیتی آبادیوں پر حملوں نے خطے کے ممالک اور بین الاقوامی سطح پر انسانی جذبات اور ضمیر کو حقیقی طور پر مجروح کیا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم نے شام میں اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک کے سامنے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ شامی عوام کے مختلف طبقات کے خلاف قتل و غارت اور تشدد بند ہو جائے گا۔
بقائی نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمات کھولے گئے ہیں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نمائندوں نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہوا وہ نسل کشی ہے۔ نسل کشی کی سزا کے کنونشن اور معاہدے کے مطابق، ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی ایسے فریق کو مدد فراہم کرنے سے گریز کریں جو نسل کشی کا ارتکاب کرے اور نسل کشی کو روکنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کرے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے پہلا قدم صیہونی حکومت کو ہتھیار بھیجنا بند کرنا ہے جو کہ بدقسمتی سے ابھی تک حاصل نہیں ہوسکا اور امریکہ اور بعض یورپی ممالک اس حکومت کو ہر قسم کے ہتھیار فراہم کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اسلامی ممالک کے مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ بھی ہے (جس کا اس قرارداد کے متن میں بھی ذکر ہے) کہ ممالک کو چاہیے کہ وہ اس حکومت کے ساتھ تمام مالی تعاون اور تجارتی تعلقات اس وقت تک منقطع کرلیں جب تک کہ قبضہ اور جرائم جاری ہیں جو بدقسمتی سے ان 8 دہائیوں میں کبھی نہیں رکے۔
یورپی ممالک کی جانب سے ٹرگر میکانزم کو فعال کرنے کے دعووں اور دھمکیوں کے بارے میں، وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہمیں ٹرگر میکانزم کو فعال کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا، اور ایسا لگتا ہے کہ مخالف فریق بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کارروائی ان کے حق میں نہیں ہے اور وہ اسے پوائنٹس اسکور کرنے کے آلے کے طور پر استعمال نہیں کر سکتے۔
انہوں نے واضح کیا کہ وہ اس طرح کے کسی بھی طریقہ کار کے استعمال کے نتائج سے آگاہ ہیں اور مزید کہا کہ شاید مارچ کے آخر میں، ماہرین کی سطح پر یورپ کے ساتھ بات چیت کی جائے گی۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کے حالیہ اجلاس میں کیے گئے دعوؤں کے بارے میں بقائی نے کہا کہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کچھ ایسے بیانات دہرا رہے ہیں جن کی کوئی تکنیکی بنیاد نہیں ہے اور وہ زیادہ تر سیاسی نوعیت کے ہیں۔ یہ نقطہ نظر کشیدگی کو ہوا دینے کے علاوہ کوئی اثر نہیں رکھتا اور ایجنسی کے تکنیکی موقف پر بھی سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ افزودگی کی سطح کے بارے میں تشویش کا دعویٰ جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔ سب سے پہلے، جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے مطابق، افزودگی پر کوئی پابندی نہیں ہے، اگر افزودگی میں اضافہ ہوتا ہے، تو معائنے میں بھی اضافہ ہونا چاہیے، جس کے لیے ہم تیار ہیں اور ایجنسی خود بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افزودگی ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں جوہری صنعت کی ضروریات اور استعمال کے لحاظ سے اضافہ یا کمی ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایران نے کچھ منصوبوں میں تہران ریسرچ ری ایکٹر کے لیے ٪20، ٪60 اور اس سے بھی زیادہ افزدگی کا حامل ایندھن استعمال کیا ہے۔ اس لیے ایران کے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت پر سوال اٹھانے والی رپورٹ پر مبنی نتیجہ نہ صرف تکنیکی اعداد و شمار بلکہ عالمی حقائق سے بھی متصادم ہے۔ بدقسمتی سے یہ الزامات 30 سالوں سے بغیر کسی ثبوت کے دہرائے جا رہے ہیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے اسلامی تعاون تنظیم کی قراردادوں کے بارے میں ایران کے تحفظات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم کی قراردادوں پر ہمارے تحفظات کوئی نئی بات نہیں ہے، ہم نے انہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی یا دیگر عالمی تنظیموں میں مسئلہ فلسطین اور 2 ریاستی حل کے حوالے سے منظور ہونے والی قراردادوں میں واضح کیا ہے اور ایران نے واضح موقف کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ تاریخی اہمیت کی حامل سرزمین فلسطین کے سیاسی نظام کے بارے میں تمام باشندوں کی شرکت کے ساتھ ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ کیا جانا چاہیے۔ تاہم، فی الحال، ہم ایک نسل پرست، نوآبادیاتی، اور قابض گروہ کو دیکھ رہے ہیں جس نے تقریباً پوری تاریخی فلسطینی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس کے علاوہ، ہر قسم کے بین الاقوامی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے۔ لہٰذا، ہمارا نقطہ نظر اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ قانونی لحاظ سے ہمارا موقف واضح طور پر درج ہو۔
بقائی نے کہا کہ ایران کے ساتھ ساتھ کم از کم 2 دیگر اسلامی ممالک نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ 2 ریاستی حل عملی طور پر ممکن نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے۔