ان خیالات کا اظہار "چوسب بورل" نے بدھ کے روز ٹائم میگزین سے انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جوہری معاہدہ صرف ایک ایٹمی معاہدہ نہیں بلکہ وہ ایک معاشی معاہدہ ہے جس کی بنا پر ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو روکنے کے بدلنے میں دوسرے فریقین سے اپنے وعدوں کو پوری کرنے کی توقع رکھتا ہے۔
بورل نے امریکہ سے ایران کیساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس بات کا دعوی کیا کہ یہ تہران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کا واحد راستہ ہے۔
یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا کہ جوہری معاہدے کے بغیر کوئی اور حل نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران جوہری معاہدے کی بحالی کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ یورپی ملکوں کو امریکہ کیجانب سے پھر سے وعدہ خلافی اور معاہدے سے نکلنے کا خدشہ ہے۔
واضح رہے کہ ایران اور گروپ 1+5 کے درمیان 13 سالوں کے دوران مذاکرات کے بعد 14 جون 2015ء کو یہ معاہدہ طے پایا گیا اور اس کے ہفتے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرداد نمبر 2231 کو جوہری معاہدے کا ضم کردیا گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور جوہری معاہدے کے خلاف پرانے الزامات کو دہرا کر 8 مئی 2018ء کو اس معاہدے سے امریکی علیحدگی کا اعلان کردیا تھا۔
دوسری طرف یورپی فریقین نے اپنے جوہری وعدوں پر بھر پور طریقے سے عمل نہیں کیا اور ایران کیساتھ تجارتی لین دین کو قانونی طریقے سے جاری رکھنے کیلئے یورپ کا مالیاتی نظام انسٹیکس کا بھی پوری طرح نفاذ نہیں کیا گیا۔
لہذا ایران نے یورپی فریقین کی وعدہ خلافی کی وجہ سے اپنے جوہری وعدوں کی کمی لائی۔
جوبائیڈن نے، انتخابات میں جیتنے سے پہلے ایران جوہری معاہدے میں از سرنو شمولیت کا وعدہ دیا تھا۔
ماہرین کا عقیدہ ہے کہ جب تک ایران، جوہری وعدوں پر پوری طرح عمل نہ کرے تو امریکہ ایران کیخلاف پابندیوں کو نہیں اٹھایا جائے گا۔
تا ہم ایرانی وزیر خارجہ "محمد جواد ظریف" نے کہا ہے کہ پابندیوں کی منسوخی اور ایران کیجانب سے جوہری وعدوں میں واپسی کیلئے وقت کا تقاضا نہیں ہے اور بائیڈن تین ایگزیکٹو آرڈرز کے ساتھ پابندیاں ختم کرسکتے ہیں۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ