شیخ نعیم قاسم نے اپنے خطاب میں تاکید کی کہ خطے کی اقوام مزاحمت کے نظریے پر پختہ یقین رکھتی ہیں اور آپریشن طوفان الاقصیٰ مزاحمت کی کوششوں سے مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کا آغاز ہے۔
انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصیٰ سے پہلے قابضین کا ہدف فلسطینی عوام کی نسل کشی اور مزاحمت کو ختم کرنا تھا۔ دشمن جو کر رہا ہے وہ لڑائی نہیں بلکہ انسانیت اور آزاد قوموں کا قتل ہے۔ اگر امریکی حمایت نہ ہوتی تو صیہونی جارحیت ایک ماہ میں ہی رک جاتی۔
حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ مزاحمت وسیع محاذ پر حملہ آوروں سے لڑ رہی ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ اگر مغرب صیہونی حکومت کی حمایت نہ کرتا تو یہ حکومت باقی نہیں رہ سکتی تھی مگر امریکہ ہماری سرزمین پر قبضہ کرنے والوں کا ساتھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی مزاحمت رول ماڈل ہے، یہ ایک سال سے جاری ہے اور اس سے بھی زیادہ مضبوط ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں مزاحمت اور مقبوضہ علاقوں کے اندر کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ فلسطینی قوم اور مزاحمت کو شکست نہیں دی جا سکتی۔
شیخ نعیم نے کہا کہ ایران نے وعدہ صادق 1 اور وعدہ صادق 2 سے تل ابیب کے قلب کو نشانہ بنایا اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران مزاحمت کی حمایت اور ساتھ دینے کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے کہا کہ لبنان میں حمایتی محاذ نے دشمن کو تھکا مارا ہے اور پچھلے 11 مہینوں میں شمالی فلسطین سے قابض آباد کاروں کو نکال باہر کیا ہے۔
حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے کہا کہ نتن یاہو کہتا ہے کہ وہ شمالی مقبوضہ فلسطین کے قابض آباد کاروں کو واپس لاکر آباد کرے گا، اور ہم اس کو بتا رہے ہیں کہ اس سے بھی بڑی تعداد کو بھاگنے پر مجبور کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ انشاء اللہ ہم اسرائیل کو شکست دیں گے اور وہ اپنے مکروہ مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
شیخ نعیم قاسم نے تاکید کی کہ حزب اللہ اور مزاحمت کی قیادت منظم ہے۔ ہم میدان میں مضبوطی سے کھڑے ہیں اور آپ دشمن کی چیخ و پکار سنیں گے۔ ہمارے شہید قائدین کے پاس جو کچھ تھا، وہ سب ان کے نائبین اور معاونین کے پاس موجود ہے۔ تنظیمی طریقہ کار کی بنیاد پر ہم حزب اللہ کے نئے سیکرٹری جنرل کا انتخاب اور مناسب وقت پر اس کا اعلان کریں گے۔