لبنان میں ایران کے سفیر مجتبیٰ امانی نے جمعے کے روز لبنان اور صیہونی حکومت کے درمیان جنگ بندی کے حوالے سے کہا کہ ہم نے نہیں دیکھا کہ لبنان نے کبھی بھی امریکہ کو اپنا ایلچی بھیجا ہو اور امریکیوں سے کہا ہو کہ وہ صیہونی حکومت کو جنگ بندی پر مجبور کرے۔ نہ ہی حزب اللہ کی طرف سے جنگ بندی کی درخواست پیش کی گئی تھی، بلکہ حزب اللہ نے جنگی اسٹریٹجی کو باضابطہ اور منظم طریقے سے کنٹرول کیا۔
ایرانی سفیر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جنگ بندی سے 3 دن پہلے صیہونی حکام کے اس دعوے کے باوجود کہ انہوں نے حزب اللہ کی میزائل صلاحیت کو تقریباً ختم کر دیا ہے، حزب اللہ کی طرف سے تل ابیب اور شمالی مقبوضہ فلسطین پر 200 راکٹ داغے گئے۔ یہ صیہونیوں کے لیے بہت تلخ دن تھا اور غالباً اسی وجہ سے صیہونیوں نے جنگ بندی کو قبول کیا۔ درحقیقت اگر ہم زمینی حقائق کو دیکھیں تو صیہونیوں کو جنگ بندی کی ضرورت تھی۔
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ شام میں دہشت گرد گروہوں کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال میں مزاحمتی محاذ اور حزب اللہ کمزور ہو گئے ہیں، امانی نے کہا کہ ہم ان دہشت گرد گروہوں کے ساتھ امریکہ کے تعاون کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں، امریکہ نے ان گروہوں کو نئے ہتھیار دیے ہیں اور ترکی کی سرحدیں ان کے لیے کھلی ہوئی ہیں۔ اب شامی فوج ان گروہوں کے ساتھ براہ راست نمٹ رہی ہے اور کسی حد تک انہیں روکنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
ایرانی سفیر نے کہا کہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حلب میں سن 2011 کے واقعات کو دہرا سکتے ہیں تو وہ غلط ہیں۔ شام کی حکومت اب مضبوط ہے اور روسی حکومت شام کے دفاع کے لیے زیادہ پرعزم ہے اور مزاحمتی محاذ اور ایران بھی شام کی حکومت اور عوام کی حمایت کررہے ہیں۔