تہران۔ ارنا- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کہا ہے کہ ہم نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ہم مذاکرات میں سچائی سے  پیش آیا ہے  اور اگر اسلامی جمہوریہ جس بات پر زور دیتا ہے، یعنی "جابرانہ پابندیوں کی منسوخی"، "اعتماد سازی اور یقین دہانی" اور "سیف گارڈ کے مسائل کا حتمی حل" ہو، تو ایک اچھا معاہدے کا امکان ہے۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، سید "ابراہیم رئیسی" نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72 ویں اجلاس میں شرکت کیلئے اپنے دورہ نیوریاک کے موقع پر امریکی نیوز چینل سی بی ایس سے ایک انٹرویو کی ہے جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں؛

* بارہا امریکیوں کو کہا کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ سے مذاکرات کرسکتے ہیں لیکن انہوں نے پھر اس مسئلے کو سیاسی رنگ دے کر قیدیوں کی آزادی کو جوہری معاہدے کے معاملے سے جوڑدیا؛ حالانکہ یہ ایک الگ انسانہ دوستانہ مسئلے کے طور دنوں ممالک کے درمیان حل کیا جا سکتا ہے۔

* آج ایران کے پاس سے بڑی ترقی یافتہ فوجی صنعت ہے۔ خود امریکیوں اور علاقائی ممالک کو بھی اس بات پر واقفیت حاصل ہے کہ ہمارے پاس بڑی ترقی یافتہ اور جدید فوجی ساز و سامان ہیں۔

* آج ہم گیس اور تیل کے سب سے بڑے پیداوار کرنے والے ممالک میں سے ایک ہیں اور امریکی پابندیوں نے اس بات کا باعث بنی ہے کہ نہ صرف وہ بلکہ یورپ اور دیگر ممالک بھی ایرانی گیس اور تیل کا استعمال نہ کرسکیں۔

* ہماری فوجی صنعت کے ساز و سامان میں دشمن کیخلاف ملک کا دفاع کرنے کی مکمل صلاحیت ہے۔ ہم اس فوجی طاقت کو ایران اور علاقے کے مفاد میں سمجھتے ہیں اور خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی موجودگی علاقے میں سلامتی لائی ہے۔

* فلسطینی مسائل کا حل، اس ملک کے عوام کا قتل نہیں ہے بلکہ اس کا حل، فلسطینی عوام بشمول مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کو حقوق دینا ہے؛  آپ کئی بار کہتے کہ ہم عوام کے ووٹ پر یقین رکھتے ہیں، تو پھر فلسطینی عوام کے ووٹ کا حوالہ دیں۔

* آج پوری دنیا کا یقین ہے کہ جو صہیونی ریاست فلسطینی عوام اور ان کی سرزمینوں کیخلاف کر رہی ہے، ظلم کے سوا کچھ نہیں ہے۔ وہ جو اب ناجائز صہیونی ریاست سے اپنے تعلقات کو معمول پر لاتے ہیں وہ فلسطینی ارمان کو نظر انداز کرتے ہیں؛ تا ہم صیہونی ریاست کا خطے کے ممالک کے ساتھ روابط کو معمول پر لانے سے فلسطین کے نصب العین کو کسی صورت کم نہیں کیا جا سکتا۔

* نئی امریکی حکومت کو عمل میں یہ ثابت کرکے دیکھنا ہے کہ وہ دوسری حکومت سے مختلف ہے۔ یعنی وہ عملی طور پر ایران کیخلاف پابندیوں کو اٹھائے اور پچھلی حکومت کیجانب سے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد وعدہ خلافیوں کا ازالہ کرے۔

* حاج قاسم سلمیمانی دہشتگردی کیخلاف جنگ کے ہیرو ہیں۔ اگر ہم دنیا میں دشہتگردی کیخلف لڑنے والے کی ایک علامت کو تعارف کرنا چاہیں تو وہ جاج قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس ہیں جو دونوں دہشتگردی سے نمٹنے کی دو مثالی علامت ہیں اور اصل میں ان کی جد و جہد اور شامی، ایرانی اور عراقی اہلکاروں کی کوششوں نے خطے میں قیام امن اور سلامتی کی سبب بنی۔

* آج اگر ہم شام اور عراق میں سلامتی کو دیکھتے ہیں تو وہ حاج قاس سلیمانی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ کی علامت بننے والے شخص کو سراہنا ہوگا یا اس کا قتل؟ امریکیوں نے، یعنی موجودہ حکومت اور خود ٹرمپ نے، حاج قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کے لیے جو کیا وہ واقعی ایک جرم تھا تو اس مسئلے  کا تعاقب کیا جانا ہوگا یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ انصاف برقرار ہونا ہوگا یا نہیں؟ اور جنہوں نے اس جرم اور ظلم کا ارتکاب کیا ان پر مقدمہ چلنا ہوگا یا نہیں؟

* ہم بحیثیت اسلامی جمہوریہ جس بات کی پیروی کرتے ہیں اور کریں گے وہ انصاف کا نفاذ ہے۔ ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے خطے کی سلامتی میں اہم کردار ادا کرنے والے مجاہد اور جنگجو کے قتل میں جو جرم کیا گیا ہے اس کے بارے میں انصاف کی پیروی کی جانی ہوگی۔ ہم انصاف کے نفاذ یعنی حاج قاس سلیمانی کے قتل کا تعاقب کرنے کے خواہاں ہیں۔ ہم اس جرم کا جائزہ لینے کو کبھی نہیں بھولیں گے اور ہم اس مسئلے کی پیروی کریں گے۔

* حاج قاسم سلیمانی کا قتل ایک ریاستی دہشتگردی تھی؛ سب نے دیکھا کہ ٹرمپ نے خود واضج طور پر کہا کہ انہوں نے قتل کی ہدایت دی ہے۔ کیا قتل کا حکم دینے والے سے تفتیش نہیں ہونی ہوگی؟ اس نے حج قاسم سلیمانی جیسی مجاہد شخصیت کو کیوں قتل کیا؟

* اسلامی جمہوریہ ایران میں اس قدر ہمت تھی کہ وہ باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ وہ عین الاسد کے اڈے کو نشانہ بنایا ہے۔دنیا میں کہیں بھی، ہم کارروائی کرتے ہیں، ہم اس کا اعلان کرتے ہیں، اور ہمارے پاس یہ ہمت ہے۔ ہم اس قسم کے اقدامات نہیں کرتے جو آج دنیا اور خطے میں امریکی اور صیہونیریاست کر رہے ہیں اور ان سے عدم تحفظ پیدا ہوتا ہے۔ ہمیں انصاف ملنے تک شہید حاج قاسم سلیمانی کے قتل کا تعاقب کرنا ہوگا۔

* حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ہستی کی توہین،  حضرت عیسی اور حضرت موسی کی توہین، ابراہیم خلیل کی توہین، تمام انبیاء کی توہین، تمام ابراہیمی مذاہب کی توہین اور دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی توہین۔ یہ نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ تمام مذاہب کی توہین ہے۔ آزادی کے نام پر دنیا میں لوگوں کو تمام مقدسات کی توہین کی اجازت نہیں ہونی ہوگی۔ یقینا ہر کوئی آئین میں توہین اور گالی کی مذمت کی جاتی ہے۔

* آج مغربی ممالک کو جواب دینا ہوگا کہ وہ کسی ایسے شخص کی حمایت اور عہدہ کیوں دیتے ہیں جو ڈیڑھ ارب مسلمان عوام کی توہین کرتا ہے؟ تمام حکومتوں، دنیا کے لوگوں اور تمام ابراہیمی مذاہب کی طرف سے اس کی مذمت کی جانی ہوگی، تاکہ کسی کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لوگوں کے عقائد کی توہین کرنے کی جرات نہ ہو۔

* ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں آج بھی ایسے لوگ ہیں جو مظلوم ہیں، اور ہم کبھی کبھی میڈیا کے ذریعے ان کی کچھ تصاویر دیکھتے ہیں، جس میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ کالے اور گورے کس طرح مظلوم ہیں۔

* ہم امریکہ، یورپ، افغانستان، فلسطین اور حکمرانوں کی طرف سے کسی بھی عوام کے خلاف ظلم کو قابل نفرت اور قابل مذمت سمجھتے ہیں، اس لیے مجھے یقین ہے کہ اگر امریکہ میں ہی عوام پر ظلم ہوتا ہے تو ہم اس کی مذمت کریں گے؛ ہم یورپ میں ہی ان پر ظلم کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ، ایشیا اور افریقہ کے لوگوں میں کوئی فرق نہیں ہم دنیا میں ہر جگہ ظلم کی مذمت کرتے ہیں؛ ہم جس چیز کی مذمت کرتے ہیں وہ تسلط کا نظام ہے جو مختلف ممالک کے لوگوں پر اپنا تسلط بڑھانا اور مختلف ممالک پر ظلم کرنا چاہتا ہے۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu

لیبلز