ارنا رپورٹ کے مطابق، گزشتہ منگل کو اعلی ایرانی مذاکرات کار "علی باقری کنی"، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے نائب سربراہ "انریکہ مورا" اور امریکی خصوصی نمائندے برائے ایرانی امور "رابرات مالی" سے مذاکرات کا قطری دارالحکومت دوحہ میں انعقاد کیا گیا۔
ایران اور امریکی فریقین کے درمیان بالواسطہ مذاکرات، یورپی یونین کے نمائندے کی ہم آہنگی سے پیغامات کے تبادلہ کے ذریعے کیے گئے؛ علی باقری کنی نے منگل کو انریکہ مورا سے ملاقات کی اور شیأول کے مطابق اسی فریم کے اندر مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔
کہا جاتا ہے کہ دوحہ مذکرات ایک انتہائی پیشہ ورانہ اور سجیدہ ماحول میں انعقاد کیا گیا جس میں تجاویز اور نقطہ نظروں پیش کی گئیں۔
ایران اور گروہ 4+1 کے درمیان ویانا آٹھ دور کے مذکرات اب اس مرحلے تک پہنچ گئے ہیں کہ ان کی کامیابی یا ناکامی صرف اور صرف اس معاملے میں قصور وار امریکہ کے سیاسی فیصلوں سے منسلک ہے؛ اگر امریکہ وہ ضروری فیصلے کرے جو ان پر واقف بھی ہیں تو باقی دیگر تصفیہ طلب امور کئی چند دنوں میں حل ہوکر حتمی معاہدہ طے پایا جاتا ہے۔
تاہم مغربی میڈیا ایران کو قصوروار ٹھہرانے کے کھیل کے سلسلے میں ایران کو ان مذاکات کہ ممکنہ شکست اور کوی معاہدے طے نہ ہونے کا اصل قصور وار قرار دینے پر زور دیتی ہیں جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مطالبات 2015 کے معاہدے کے تقاضوں کے مطابق اور مغربی فریقین کی کارکردگی سے حاصل ہونے والے تجربات کے مطابق ایک حقیقت پسندانہ نقطہ نظر کے ساتھ طے کیے گئے ہیں۔
اسی نقطہ نظر سے میڈیا پروپیکںورں اور ٹائم کو دباؤ کے اوزار کے طور پر استعمال کرنے سے ایران کے اصول اور مذاکرات کے ہدایات میں تبدیلی نہیں لاسکتی اور اسلامی جمہوریہ ایران نے وہی ہدایات اور تجاویز کو پیش کیا ہے۔
لیکن جوبائیڈن کا انتظامیہ کو جو منظر عام میں جوہری معادے میں واپسی میں دلچسبی کا اظہار کرتا ہے کانگرس میں جوہری معاہدے کے مخالفین کے سامنے اپنی سیاسی سرمایہ کو بروئے کا لانے میں کوئی دلچسبی نہیں ہے اور اس غیر یقینی صورتحال نے، ویانا مذاکرات کے ارکین جو اس معاملے کو جلد از جلد کسی نتیجے پر پہنچنے کے خواہاں ہیں، کو تعلل کا شکار کیا ہے۔
یورپ کی خارجہ تعلقات کی کونسل نے جوہری معاہدے کی بحالی سے متعلق ایک پورٹ میں جوہری معاہدے میں واپس کیلئے جوبائیڈن کیجانب سے اندروں ملک میں خانہ جنگی کیخلاف مقابلہ کرنے کا کوئی حوصلہ نہیں ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے؛ بائیڈن کے شکوک و شبہات میں جو کہ دسمبر میں امریکی وسط مدتی انتخابات کے قریب آتے ہی بڑھنے کا امکان ہے، نے بہت سے یورپی رہنماؤں کو پریشان کر دیا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کو کیا کرنا ہے اور صرف مسائل میں اضافہ کرتا ہے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu