3 عشرے سے زائد عرصے سے، اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے بانی امام خمینی (رح) کے بصیرت افروز فرمان کے مطابق، پیغمبر رحمت و ہدایت حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد مسعود کے ایام کو، تاریخی اختلاف سے بالاتر ہوکر، قرآن کریم کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کے لئے بہترین موقع میں تبدیل کردیا ہے۔
گزشتہ برسوں کی طرح امسال بھی رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے منجی وحدت حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت باسعادت پر بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے مندوبین، اسلامی ملکوں کے سفیروں اور ملک کے حکام سے ملاقات میں اپنے خطاب میں موجودہ عالمی نظام میں جو بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہاہے، وحدت مسلمین کی اہمیت پر روشنی ڈالی ۔
وحدت کے بارے میں اسٹریٹیجک نقطہ نگاہ
قرآن کریم کی تعلیمات اور سنت رسول (ص) کے نفاذ کو اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی تاسیس کے بعد سے معاشرے اوردنیا کا نظام چلانے کی اسٹریٹیجک حکمت عملی کے عنوان سے اپنےبنیادی ترین اہداف میں رکھا ہے۔ اتحاد مسلمین کے بارے میں رہبرانقلاب اسلامی کا نقطہ نگاہ اسی ہدف کے پس منظر میں قابل فہم ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کےنظریئے کے مطابق، امت واحدہ کی شکل میں مسلم اقوام اور ملکوں کا اتحاد ایک اہم حکمت عملی کےعنوان سے اسلامی جمہوریہ ایران کی پیٹرولیم اور خارجہ امور کی وزارتوں اور ابلاغیاتی اداروں سمیت مختلف اداروں کے اقدامات اور فیصلوں میں مد نظر رہا ہے۔
اسی نقطہ نگاہ کے تحت ایران برسوں سے اس کوشش میں ہے کہ خطے کے مسلم ممالک اس تاریخی اور دینی حقیقت اور اسٹریٹیجی کو سمجھ لیں کہ ان کا باہمی اختلاف اس خطے سے باہر کی حکومتوں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ان کے امور میں مداخلت کریں، ان کی تقدیر کا فیصلہ کریں، ان کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار کریں اور ان کا امن و استحکام غارت کردیں۔
رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے منگل 17 ربیع الاول کو ملک کےحکام ، اسلامی ملکوں کےسفیروں اور عالم اسلام کے علمائے کرام سے ملاقات میں، اس یلغار اورغارتگری کی طرف اشارہ کیا اور اسلامی دنیا کے سربراہان، سیاستدانوں، صاحب الرائے حضرات اور دانشوروں کو اس سوال پرغوروفکر کی دعوت دی کہ " اسلامی ملکوں کےاتحاد کے دشمن کون ہیں؟ مسلمانوں کے اتحاد سے کن قوتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور ان کی جارحیت، غارتگری اور مداخلت میں مانع ہے؟
شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا میں وسائل کی لوٹ مار
جمہوریت، انسانی حقوق، جوہری اور کیمیائی ہتھیاروں کے خلاف جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دوسرے ملکوں پر لشکر کشی کے لیے جو بھی دلکش عنوان چنا ہو، اس کے پس پردہ ہمیشہ سے خفیہ مقاصد کار فرما تھے جو اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہے اور بہت سے مبصرین اور امریکی و یورپی ارکان پارلیمنٹ اور سینٹ بھی اس کا اعتراف کرچکے ہیں: "لوٹ مار"؛ ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف ہزاروں دستاویزات میں جا بجا دکھائی دیتا ہے بلکہ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس جانب اشارہ کیا ہے اور بارہا کہا ہے کہ مغربی ایشیا میں امریکی فوج کی موجودگی صرف تیل کے لیے ہے، اس خطے کے لوگوں کو دہشت گردی، آمریت اور جنگ سے بچانے کے لیے نہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کے وسائل کی لوٹ مار کی جانب جو اشارہ کیا ہے اسے اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ مغرب کی مداخلت ہی کرہ ارض کے اس حصے میں پائی جانے والی چھوٹی بڑی مشکلات کی اصل جڑ ہے۔
مغربی ایشیا یا یہی خطہ مشرق وسطیٰ کے نام سے مشہور ہے اور اسی شمالی افریقہ میں 100 سال سے جاری امریکی مداخلت نے دنیا کے اس حصے کے قدرتی وسائل اور ملکی دولت کو جو کہ یہاں کے لوگوں کا حصہ اور حق تھا، ان سے چھین کر مغربی سیاستدانوں کے حوالے کردیا۔ قابل غور اور افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے پلیٹ فارم پر امن و سلامتی کے قیام کے دعوے اور سماجی، اقتصادی اور سیاسی بحرانوں کے جنگ جیسے نظریات کو اپنی لوٹ مار کے جواز کے لیے استعمال کیا ہے حالانکہ ان بحرانوں کی پیدائش میں اس نے سب سے بڑا کردار ادا کیا ہے۔
تیل کی بے پناہ دولت سے مالا مال شمالی افریقہ کا ملک لیبیا ایسے ملکوں کی ایک مثال ہے جہاں امریکہ اور یورپ نے حکومت مخالف مظاہرین کی حمایت کے بہانے مداخلت کی اور صدر معمرقذافی کو معزول کرکے اس ملک کے معاشی امور اور تیل کے ذخائر کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا، وہ ملک جو 2007 میں فسادات کے آغاز سے پہلے تک، 41.5 بلین بیرل تیل کے ذخائر کے ساتھ، دنیا میں 9ویں نمبر پر تھا، اورآج تیل پیدا کرنے والا دیوہیکل ملک ہے کیا اسے یورپ اور امریکہ کے قبضے میں ہونا چاہیے، 2016 میں، امریکی جریدے نیویارک ٹائمز نے ایک مضمون شائع کیا جس میں کہا گیا تھا کہ "قذافی" کا تختہ الٹنے اور لیبیا کو تباہ کرنے کا ایک مقصد اس سرزمین کی قدرتی دولت پر قبضہ کرنا ہے۔
بحران لیبیا کے ابتدائی دنوں میں امریکی ایوان کے وسائل کی کمیٹی کے ایک سینئر رکن نے اس وقت کے امریکی صدر بارک اوباما کے لیبیا میں مداخلت کے فیصلے کی حمایت اور کھل کر کہا تھا کہ امریکہ تیل کی وجہ سے لیبیا گيا ہے اور ہماری مداخلت کی اصل وجہ یومیہ 5 ملین بیرل تیل کا حصول ہے جو ہم اوپیک سے خریدتے رہے ہیں۔
شام کے قدرتی ذخائر امریکی لوٹ مار کی ایک اور کھلی مثال ہیں، شام کی وزارت پیٹرولیم نے گزشتہ سال 9 اگست کوجاری کیے جانے والے ایک بیان میں امریکی افواج اور اس کے اتحادیوں پر الزام لگایا تھا کہ وہ یومیہ ٪ 83 تیل (66 ہزار بیرل) اپنے زیر قبضہ آئل فیلڈ سے چوری کر رہے ہیں۔ شام کے تیل سے مالا مال شمالی علاقوں پر امریکہ اور اس کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں نے ناجائز قبضہ کررکھا ہے۔ بیان میں اس تلخ حقیقت کی جانب بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ شام کی تیل کی صنعت کو امریکی فوج کے ہاتھوں تیل کی چوری کے نتیجے میں، جنگ کے آغاز سے گزشتہ سال کے وسط تک، تقریبا 105 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
ایک سال بعد شام کی وزارت خارجہ نے اپنے ملک میں امریکی موجودگی، مداخلت کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ 341 ملین بیرل تیل چوری کیا گيا ہے۔ شام کی وزارت خارجہ نے اس کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ روزانہ 1 لاکھ سے 1 لاکھ 30 ہزار بیرل تیل لوٹ کر لے جارہا ہے اور یہ مقدار اب 1 لاکھ 50 ہزار بیرل یومیہ تک پہنچ گئی ہے۔ علاوہ ازیں 12 ارب ڈالر مالیت کی 50 ملین مکعب میٹر گیس اور 4 لاکھ 13 ہزار ٹن سلینڈر گیس چوری کرچکا ہے۔ 3 ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کا انفرا اسٹریکچر تباہ یا چوری ہوا ہے جبکہ تیل اور گيس کی تنصیبات پر نام نہاد داعش مخالف اتحاد کی بمباری میں 2 ارب 90 کروڑ ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔
11 ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے،افغانستان میں امریکی لشکر کشی کا ایک نتیجہ اس ملک کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار کی شکل میں سامنے آیا جس کی مالیت 3 ٹریلین ڈلر کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ امریکی لشکر کشی کے ابتدائی ایام میں ہی فوجیوں کے ساتھ ساتھ امریکی ماہرین ارضیات کی ٹیمیوں کو بھی ایکسپلوریشن کے لیے ساتھ لایا گيا تھا۔
اور آخر کار، عراق، ایران کا مغربی ہمسایہ، جس کے قدرتی وسائل اور توانائی کی مغرب کے ہاتھوں لوٹ مار کا دیگر ممالک کے مقابلے میں ایرانیوں نے بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے، عراق میں امریکا اور برطانیہ کی مداخلت پسندانہ موجوگی، جو کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کے دعوی سے شروع ہوئی جو کھبی ثابت نہیں ہوا، مگر اسے عراق پر لشکر کشی، تیل کے کنوؤں، مرکزی بینک اور معدنیات، دھات کی کانوں اور آثار قدیمہ سے لیکر اس ملک کے تمام قدرتی وسائل پر قبضہ جمانے کا بہانا بنایا گيا۔
عراق میں جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے سرو سامانی کے بعد، امریکی اور برطانوی کمپنیوں نے طویل المدت معاہدوں کے ذریعے، جن میں سے بعض معاہدوں کا دورانیہ آدھی صدی تک پہنچ جاتا ہے، عراقی تیل کی صنعت کو قبضانے اور کوڑیوں کے مول خریدنے کی بھرپوری کوشش کی۔ امریکی محکمہ توانائی نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ ماہ ستمبر میں عراق سے تیل کی درآمدات 60 لاکھ بیرل زیادہ رہی ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ سن 2003 میں عراق پر حملے کے بعد، امریکہ نے فیصلہ کیا کہ صدام حسین کے اقدامات کے خلاف دیگر ملکوں کی جانب سے تاوان کی ادائيگی کے مطالبات کے پیش نظر عراق کی دولت میں سے تیل کی آمدنی کو امریکی رزرو بینک میں جمع کرایا جائے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے حالانکہ کویت کو تاوان کی ادائيگی کی جاچکی ہے اور عالمی اداروں نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ایسی کوئی دوسری شکایات سرے سے موجود نہیں۔ عراق کی تیل کی آمدنی آج بھی امریکہ کے مرکزی بینک میں جمع ہوتی ہے جو اب 115 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ امریکی چرواہے اس پیسے کی نگرانی کرتے ہیں اور عراق، امریکی سینٹرل بینک کی اجازت کے بغیر ایک ڈالر بھی اس میں سے نہیں نکال سکتا۔
لوٹ مار کا یہ سلسلہ عراق اور مغربی تیل کمپنیوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں میں دوسری شکلوں میں شامل کیا گيا ہے اور حکومت عراق اور فرانسیسی کمپنی ٹوٹل کے درمیان ہونے والے تیل، گیس اور تجدید پزیر توانائی سے متعلق بھاری بھرکم معاہدہ اس کی واضح مثال ہے، 27 ملین ڈالر مالیت کا یہ معاہدہ جس پر دستخط ہونے میں 2 سال لگے، عراقی حکومت کو صرف ٪ 30حصہ دیا گیا جبکہ ٹوٹل کمپنی نے ٪45 ہتھیالیا اور ٪25 قطر کے حصے میں آیا۔
پچھلے سال، امریکی بجٹ کمیشن نے عراق میں جنگ کے مادی اخراجات کا تخمینہ 1.9 ٹریلین ڈالر لگایا تھا۔ اور یہ رقم کسی نہ کسی شکل میں عراق کی قومی دولت سے حاصل کی جائے گی۔ اس بات کو اس سال کے آغاز میں عراق میں کیے گئے ایک سروے کے نتائج سے بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ سروے نتائج کے مطابق ٪51 عراقی شہریوں کا خیال ہے کہ امریکہ نے تیل اور گیس کے ذخائر لوٹنے کی غرض سے 2003 میں ان کے ملک پر حملہ کیا تھا اور امریکہ کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ اس حملے کا مقصد بعث حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔ یقیناً اگر خطے کے دیگر ممالک میں بھی اس طرح کے سروے کرائے جائیں تو عوام کی طرف سے ایسے ہی جوابات موصول ہوں گے، جو ان ملکوں کے رہنماؤں اور حکومتوں کے لیے ایک اہم وارننگ تصور کی جاتی ہے۔
غنڈہ گردی اور لوٹ مار کے خلاف متحدہ پالیسی
دنیا کے حالات اور خطے میں مغرب کی موجودگی کے حوالے سے صورتحال اس قدر واضح ہے کہ بہت سے لوگ تواتر کے ساتھ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب صورتحال واضح دکھائی دے رہی ہے تو پھر خطے کے ممالک مغرب کے ناجائز مطالبات کے سامنے اتنا جھکتے کیوں چلے جارہے ہیں؟ یہ وہی سوال ہے جس کا جواب رہبر انقلاب اسلامی نے گزشتہ روز اپنے خطاب میں دیا اور فرمایا کہ یقینا دنیا کا کوئی بھی ملک نہیں چاہتا کہ کوئی بیرونی طاقت اس کے معاملات، اس کی پالیسیوں اور سیاست میں مداخلت کرے اور یہ کہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ یہ واضح ہے مگرپھر بھی گھٹنے ٹیک دیتے ہیں ، آخرکیوں، اس لیے کہ وہ اکیلے ہیں۔ لیبیا، عراق، شام اور افغانستانی عوام اور حکومتیں، اپنے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کے نتائج کے بارے میں دوسری قوموں اور اداروں سے کہیں زیادہ بتا سکتے ہیں۔ لیکن یہ حقائق خطے کے دیگر ملکوں کے لیے امریکی مداخلت کے خاتمے کے لیے ایک وارنگ کے بجائے واشنگٹن سے مزید وابستگی اور خوف کی وجہ بن گئے ہیں۔
اسلام جمہوریہ ایران اس خوف کی وجوہات اور بنیادوں کو سامنے رکھتے ہوئے، اس کے تدارک کے لیے جو تجویز پیش کرتا ہے وہ وحدت کی تجویز ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی وحدت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر ہم متحد ہوجائيں، ایک پالیسی اپنائيں تو امریکہ کچھ کرنے کی جرائت نہیں کرسکتا۔ سربراہان مملکت، سیاستدانوں، دانشوروں اور صاحبان فکر و نظر کو اس مسئلہ پر غور اور اس کے فوائد کو پرکھنا چاہیے۔ اگر حکومتیں ایک دوسرے کا ساتھ دیں، متحد ہوجائيں تو امریکہ جیسی طاقتوں کی مداخلت اور دست درازی کا راستہ روک سکتیں ہیں۔
امت مسلمہ کی وحدت کے دشمن
صراط مستقیم جو قرآن نے اپنی امت کو دکھائی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران پچھلے 40 برس سے اس پر زور دے رہا ہے، وہ سورہ آل عمران کی یہ آیت ہے، «وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّهِ جَمیعًا وَلا تَفَرَّقوا»۔ لیکن موجودہ دنیا میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا اور تفرقہ سے پرہیز کرنا پہلے سے کہیں زیادہ دشوار ہے، مسلمانوں کے اتحاد کے دشمن بھی موجود ہیں کیونکہ یہ اتحاد ان میں بہت سوں کے مفادات کے لیے خطرہ ہے۔ بنابرایں، وہ اس کے مقابلے کے لیے ہرحربہ اور طریقہ استعمال کر رہے ہیں۔
عالمی نظام میں آنے والی تبدیلیوں اور دنیا میں کثیر القطبی کے نئے افق روشن ہونے کے بعد امریکہ جو پچھلی 2صدیوں سے دنیا کی چودھراہٹ کا دعوی کرتا رہا ہے، ہر ایسی پالیسی، فیصلے اور اقدام کی مخالفت اس کے بانیوں کے خلاف دشمنی اور عداوت پر اتر آيا ہے جس کے نتیجے میں دنیا میں طاقت کے نئے مراکز جنم لے سکتے ہوں۔
لہذا تیل اور توانائی کے سب سے زیادہ ذخائر رکھنے والے خطے کے ملکوں اور مسلمانوں کے درمیان یکجہتی، وائٹ ہاوس کے لیے ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے، جو مسلمان ملکوں کے درمیان پائے جانے والے اقتصادی، سیاسی اور سیکورٹی اختلافات سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہے، اور اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے جنگ بھڑکانے سے لیکر غاصب صیہونی حکومت کی تقویت تک ہر حربہ آزما رہا ہے، لیکن اتحاد ہی ان تمام زھریلی سازشوں کا توڑ ہے اور خطے سے جنگ کے سائے دور کرنے اور پائیدار امن کے قیام کا سبب بن سکتا ہے۔
مشرق وسطی کے اہم ترین ممالک کے طور پر، ایران، سعودی عرب، عراق، لبنان، شام، مصر اور اردن اگر امریکہ اس کے اتحادیوں کے ناجائز مطالبات کے مقابلے میں قرآن مجید اور رسول کریم (ص) کی تعلیمات کی اساس پر مشترکہ حکمت عملی اپنائيں تو وہ علاقائی طاقت کے طور پرایسا استحکام پیدا کرسکتے ہیں جو خطے کے عوام کے خلاف دشمن کے سیاسی اور اقتصادی حملوں کی تعداد اور شدت کم کرسکتا ہے۔ خطے کے ملکوں کے درمیان اختلافات اور خاص طور سے سرحدی تنازعات کھڑے کرنے کی مغربی کوششیں ناکام ہوں گی اور یہاں کے ملکوں کی قدرتی ذخائر خود ان ملکوں کے عوام کے ہاتھوں میں آجائيں گے۔ خطے کے ملکوں کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی معاملات میں مداخلت اور ناجائز مطالبات کا سلسلہ ختم ہوجائے گا اور آخر کار دہشت گرد گروہوں کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا موقع نہیں ملے گا۔
اتحاد کا تزویراتی اور اسٹریٹیجک نظریہ آج سے نہیں بلکہ برسوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی اور رہبر انقلاب اسلامی کی توجہ کا مرکز رہا ہے جبکہ مکتب تشیع کی فقہ سیاسی کا اہم ترین باب شمار ہوتا ہے۔ یہ نظریہ تکفیری سوچ اور فرقہ واریت کے مقابلے میں امت واحدہ کے قیام کا مستحکم راستہ ہے۔ ایسی امت جو وحدت کے سائے میں، ایک جانب اپنی آزادی اور سربلندی اور دوسری جانب اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کی حفاظت کرسکے۔