لندن۔ ارنا- ایک برطانوی ماہر سماجیات کا عقیدہ ہے کہ ایران میں حالیہ فسادات میں غیر ملکی دہشتگردی تنظیمیں ملوث ہیں جس کا دنیا میں ہنگامہ آرائی اور سیاسی نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا سیاہ کارنامہ ہے اور وہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے لوگوں کے جذبات کو بھڑکاتی ہیں۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، برطانوی ماہر سماجیات اور سیاسی امور "دیوید میلر" نے پیر کے روز کو ارنا نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری رائے میں سب سے اہم کلیدی  نکتہ یہ ہے ایران میں حالیہ مظاہروں کی بیناد کو مہسا امینی نامی کرد لڑکی کی موت سے متعلق ایک جھوٹی داستان سے منسوب کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کا دعوی کیا گیا ہے کہ پولیس وین میں اس کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور اس کے سر پر چوٹیں آئیں جس کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی۔

 میلر نے کہا کہ لیکن میری رائے میں، یہ مسائل غیر متعلق ہیں اور اس واقعہ کو انجام دینے کے لیے جغرافیائی سیاسی مفادات رکھنے والے دھاروں خاص طور پر امریکہ، صہیونیوں اور دہشت گرد گروہوں جیسے پیپلز مجاہدین کے ذریعے منظم کیے گئے ہیں، اس لیے میری رائے میں، اس کہانی کا آغاز ہی بنیاد تھا۔ جھوٹے بیانیے اور جیو پولیٹیکل اداکاروں نے ان کے اسٹارٹ بٹن دبایا۔

انہوں کہا کہ ایران میں حالیہ فسادات، ایران اور بیرون ملک میں غیر ملکی طاقتوں سے وابستہ عناصر سے منسک ہیں بشمول وہ جاسوسی خدمات اور تنظیمیں جیسی سوروس فاؤنڈیشن جو اس شعبے میں کام کرتی ہیں اور دوسرے ممالک میں فسادات اور سیاسی نظام کو تباہ کرنے کا سیاہ کارنامہ رکھتی ہیں۔

ملر نے کہا کہ اگر یہ مظاہرہ خواتین کے حقوق اور لازمی حجاب کے دفاع میں ہوتا تو یہ پولیس اہلکاروں کے قتل، عوامی املاک کی تباہی اور آئی آر جی سی کے خلاف منظم حملوں کا باعث نہ بنتا۔

انہوں نے کہا کہ لہذا، میری رائے میں، ان کارروائیوں کا خواتین کے مظاہروں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے منظم کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے مغربی میڈیا کے اس دعوے کے بارے میں کہ ایرانی عوام کے احتجاج کا غیر ملکی ایجنٹوں کی مداخلت سے کوئی تعلق نہیں، کے جواب میں کہا کہ جیسا کہ میں نے کہا، کہانی شروع سے ہی ایک جھوٹی داستان سے شروع ہوئی تھی اور مظاہرین کی قیادت وہ عناصر کر رہے تھے جو لوگوں کو سرکاری املاک کو تباہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کے بقول، مسیح علی نژاد جیسے لوگ، جو امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کی ایک عنصر ہیں، لوگوں کو ایمبولینسوں کو آگ لگانے اور سیکورٹی فورسز پر حملہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ "اس طرز عمل کا اپوزیشن سے کیا تعلق ہے؟"

اس برطانوی ماہر سماجیات نے ایران کے خلاف مغربی ممالک کے حالیہ مقف کے بارے میں کہا کہ کہانی کا اصل نکتہ یہ ہے کہ انہوں نے پابندیاں مزید سخت کرنے کی کوشش کی اور اسی لیے ایران میں فسادات شروع ہوگئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مقبوضہ فلسطین میں ایران جوہری معاہدے کے مخالفین اور امریکہ، جنہوں نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی، اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا اور وہ ایران کو تنہا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ اس وقت ہے جب ان کے بقول ایران کی سائنسی اور فوجی ترقی اور شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت نے مغرب کو شدید غصہ دلایا ہے اور وہ ایران پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

میلر نے جوہری مذاکرات اورحالیہ فسادات درمیان تعلق کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وہ مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں اور ایران کے ساتھ اتفاق نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اپنی ساکھ کھو چکی ہے۔ اس نے روس پر پابندیاں لگائیں لیکن امریکہ کو اس کے برعکس پاسخ ملا اور اسے نورڈ اسٹریم پائپ لائن پر حملہ کرنا پڑا۔

انہوں نے تیل کی پیداوار کو کم کرنے کے لیے اوپیک پلس گروپ کے فریم ورک کے اندر سعودی عرب اور روس کے درمیان حالیہ معاہدے کی طرف اشارہ کیا اور اسے ایک غیر معمولی پیش رفت قرار دیا جس کی وائٹ ہاؤس میں کسی نے پیش گوئی نہیں کی اور نہ ہی اس سے علاقائی مساوات پر اثر پڑے گا۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu

لیبلز