اسماعیل بقایی نے اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس میں حالیہ دنوں کی پیش رفت کے بارے میں کہا کہ آج ریفرنڈم اور 1979 میں ایرانی آئین کی منظوری کی سالگرہ ہے۔
بقایی نے کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ نے کل شام کا دورہ کیا اور آج ترکی میں ہیں۔ شام میں دہشت گردوں کے دوبارہ متحرک ہونے اور ان کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے فوری کارروائی ضروری ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ جیسے جیسے سردی کا موسم قریب آرہا ہے، غزہ کے لوگوں کے لیے قحط اور بھوک بہت تکلیف دہ ہوتی جارہی ہے اور وہاں ان جرائم کو جلد از جلد روکنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ امریکہ کے لیے خطرہ نہیں ہے اور داعش کبھی بھی امریکہ اور اس کے مفادات کے لیے خطرہ نہیں رہی۔ اگر شام میں امریکی فوجی موجودگی کا مقصد داعش کے خلاف لڑنا ہے تو پھر یہ گروہ شام میں کیا کر رہا ہے اور تحریر الشام وہاں کیسے فعال ہے؟
بقایی نے کہا کہ شام میں امریکی فوجی موجودگی شام کی خود مختاری، مخصوص اصولوں اور قوانین کی خلاف ورزی ہے اور شام میں دہشت گردوں کی مسلسل موجودگی اس ملک میں امریکہ کی موجودگی کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عراقچی کے دورہ شام کا مقصد شامی حکام کو ایران کی حمایت کا پیغام پہنچانا اور ساتھ ہی وہاں کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ ہونا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سفارتی سطح پر ہمارا اور دوسرے ممالک کا فرض ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے عالمی برادری کو متحرک کریں اور اسی مقصد کے تحت سید عباس عراقچی شام اور ترکی کے حالیہ دورے پر ہیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ترکی شام کا ایک اہم پڑوسی ہے اور اس نے نہ صرف آستانہ عمل میں کلیدی کردار ادا کیا ہے بلکہ حالیہ برسوں میں شام کے مختلف علاقوں میں کشیدگی کو کم کرنے میں بھی مفید کردار ادا کیا ہے۔
بقایی نے کہا کہ شام میں حالات پیچیدہ ہے اور جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ شام میں ناامنی سے اصل کامیابی صہیونی حکومت کو ہوگی۔ انکا کہنا تھا کہ یہ محض اتفاق نہیں کہ لبنان میں جنگ بندی کے فوراً بعد شام میں دہشت گرد گروہ سرگرم ہو گئے۔ دہشت گرد گروہوں کی تاریخ اور صیہونی حکومت کے ساتھ ان کا تعلق ہمیں اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ یہ محض اتفاق نہیں ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ تمام اسلامی ممالک اور خطے کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ حالیہ واقعات خطے کی سلامتی اور استحکام کے مشترکہ دشمن یعنی صیہونی حکومت کی کارستانی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ صیہونی حکومت کے رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے حکم پر، ہم نے فوری طور پر اعلان کیا کہ ہم کسی بھی ایسے عمل کا خیرمقدم کرتے ہیں جو صیہونی حکومت کو جوابدہ بناتا ہے، اور اسکے رہنماؤں کے استثنیٰ کو ختم کرنے کی درخواست ایک عوامی مطالبہ ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا 13 ماہ بعد کیوں ہوا اور بعض مواقع پر اس حکم کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم بین الاقوامی فوجداری عدالت کے رکن نہیں ہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت کے رکن ممالک، جن پر اس عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کی قانونی ذمہ داری ہے، اور دیگر ممالک، بین الاقوامی عمومی قوانین کی بنیاد پر، انسانی حقوق کا احترام کرنے کے پابند ہیں۔
بقايی نے کہا کہ لبنان میں جنگ بندی کے ساتھ ہی شام کی حالیہ صورتحال اور اس سلسلے میں امریکی حکام کے بیانات دہشت گردوں، صیہونی حکومت اور امریکہ کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کی نشاندہی کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہماری سفارتی سرگرمیوں کا یہ راونڈ شام کی صورتحال پر مرکوز ہے اور ہم شام میں دہشت گردوں کے دوبارہ فعال ہونے سے پیدا ہونے والے خطرات اور خطے میں اس کے منفی اثرات کے بارے میں خطے کے ممالک کے ساتھ بات چیت کریں گے۔