اس نسبتاً کم عرصے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کی حکومت کی کامیابیوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ ذیل میں ہم 13ویں حکومت کی کچھ کامیابیوں پر بات کریں گے؛
تہران اور بیجنگ کے درمیان 25 سالہ اسٹریٹجک دستاویز
اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی شعبوں میں مشترکات کے علاوہ بہت سے علاقائی اور بین الاقوامی مسائل بشمول کوویڈ 19 کے خلاف مقابلہ اور ویکسین کی تیاری کے مشترکہ منصوبوں میں تعاون، دہشت گردی اور امریکہ کے غنڈہ گردی کیخلاف جنگ، کثیرالجہتی کو فروغ دینا، "ون بیلٹ ون روڈ" کے منصوبے میں تعاون کے شعبوں میں مشترکات تہران اور بیجنگ کے درمیان کے فروغ کا باعث بن گئے۔
لیکن جنوری 2022 میں اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ کے دورہ چین کے دوران سب سے اہم واقعہ ایران اور چین کے درمیان اسٹریٹجک معاہدے کا نفاذ تھا۔ ایک ایسا معاہدہ جس کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہت تبدیلی آئے گی۔
ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ جامع دستاویز ایک ایسی دستاویز ہے جو جنوری 2015 میں دونوں ممالک کے صدور کے مشترکہ بیان کے چھٹے پیراگراف کو عملی شکل دینے کے لیے مرتب کی گئی تھی جس کا مقصد جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ کی سطح پر دوطرفہ تعلقات کو عملی طور پر فروغ دینا اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی جامع ترقی کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔
حالیہ برسوں میں، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی سطح کو "نان اسٹریٹجک پارٹنرشپ" سے "جامع اسٹریٹجک پارٹنرشپ" میں اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں واضح رہے کہ بیجنگ کے نقطہ نظر سے، تعاون کی اس سطح پر موجود ممالک نے بیک وقت ایک خاص تزویراتی اور اقتصادی اہمیت حاصل کی ہے۔
تہران اور ماسکو کا 20 سالہ اسٹریٹجک معاہدہ
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے 19 جنوری 2022 کو ایک اعلیٰ سطحی وفد کی سربراہی میں ماسکو کا دورہ کیا جہاں انہوں نے اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات کے دوران مشترکہ خطرات اور دہمکیوں کے خلاف مشترکہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔
روسی شہر دوما میں آیت اللہ رئیسی کی تقریر اور دونوں صدور کے درمیان آمنے سامنے بات چیت اس سفر کے اہم ترین واقعات میں سے ایک تھے۔
اس سفر کا سب سے اہم نتیجہ باہمی تعاون کے 20 سالہ روڈ میپ تیار کرنا تھا۔ ہمارے ملک کے وزیر نے اس حوالے سے کہا کہ ایران اور روس کے صدور نے دونوں ممالک کی وزارت خارجہ سے مطالبہ کیا کہ وہ طویل مدتی تعاون کے لیے 20 سالہ روڈ میپ تیار کریں۔
سوویت یونین کے زوال کے بعد کے دور میں تہران اور ماسکو کے درمیان تعلقات کو سٹریٹجک تعاون اور مغرب کے خلاف اتحاد بنانے کی کوششوں کی صورت میں تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
مبصرین کے نقطہ نظر سے، اسلامی جمہوریہ ایران(ایک علاقائی طاقت کی حیثیت سے)کا روس (ایک علاقائی طاقت کی حیثیت سے) کے ساتھ تعلقات بہت اہم ہے۔
حالیہ برسوں میں ایران کی پالیسی تمام ممالک خاص طور پر ایسے ممالک جو امریکہ اور مغرب کی دشمنانہ پالیسیوں کے مخالف ہیں ،کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) میں ایران کی شاندار کامیابی
خارجہ پالیسی کے شعبے میں اب تک رئیسی صدر کی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ایک اہم ترین علاقائی معاہدے میں رکنیت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا تھا۔
شنگھائی تنظیم کے سربراہوں کے 21ویں اجلاس جو 16 ستمبر 2022 کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں منعقد ہوا، کے اختتام پر اس تنظیم کے 8 اہم رکن ممالک کے سربراہوں نے نے اسلامی جمہوریہ ایران کی رکنیت کو مبصر سے اہم رکن میں تبدیل کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے۔
مبصرین کے نقطہ نظر سے شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کا مستقل رکن بننا دونوں فریقوں کے لیے فائدہ مند اور بہترین موقع ہے۔
برکس کا ایران کی رکنیت پر خیر مقدم
گزشتہ چند مہینوں میں، خاص طور پر یوکرین کے بحران کے بعد، ایک بار پھر "برکس" گروپ جو روس اور چین ان کے ممبرز ہیں، کی رکنیت کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
برکس ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقتوں کا ایک گروپ کا نام ہے جس میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے ممالک شامل ہیں۔
جولائی 2022 کے اوائل میں ورچوئل طور پر منعقد ہونے والے چودھویں سربراہی کانفرنس میں آیت اللہ رئیسی نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کی سرکاری دعوت پر اس اجلاس میں شرکت کر کے تقریر کی۔
ایرانی صدر نے اس اجلاس میں اہم ترین بین الاقوامی مسائل اور دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعاون کے فروغ کے بارے میں ایران کے مواقف اور نظریات کی وضاحت کی۔
بیک وقت ایران کے حکام نے برکس کے گروپ میں رکنیت کے لیے ایران کی درخواست پیش کرنے کا اعلان کیا؛ یہ واقعہ شنگھائی معاہدے میں مستقل رکنیت کے لیے ایران کی درخواست قبول کرنے سے تقریباً 9 ماہ بعد پیش آیا۔
ماہرین کے نقطہ نظر سے ایران کی منفرد جغرافیائی پوزیشن اور توانائی، تجارتی اور اقتصادی کے شعبوں میں منفرد صلاحیتوں کی وجہ سے ایسی ہیں کہ برکس کے ارکان تہران پر خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
22 جون 2022 کو چینی میڈیا نے پہلی بین الاقوامی مال بردار ٹرین کی ایران کی طرف روانگی کا اعلان کیا۔ اس لیے بحیرہ کیسپین کو عبور کرنے کے بعد ایک نئی بین الاقوامی شریان ایران اور پھر مشرق وسطیٰ اور مغرب کے دیگر ممالک میں داخل ہوتی ہے۔
مجموعی طور پر ایسے حالات میں جب مغرب دوسرے ممالک کے خلاف عائد پابندیوں کے ساتھ اپنے زیادہ سے زیادہ مطالبات حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے ابھرتے ہوئے بڑے ممالک کا تعاون ان کے حساب کتاب میں خلل ڈال سکتا ہے۔ دنیا کے مختلف کھیلاڑی اور برکس کے اراکین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امریکی-یورپی نظام کے نقصان سے بچنے کے لیے ایک مخصوص مالیاتی اور اقتصادی میکانزم کا تعین کریں۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@