"یہودی ایجنسی" کو تحلیل کرنے کے لیے روس کے فیصلے کے ساتھ ہی ماسکو-تل ابیب تنازعات کے ڈومینو کا ایک اور ٹکڑا، جو یوکرین کے بحران کے آغاز سے شروع ہوا تھا، منہدم ہو گیا۔ ایک ایسا مسئلہ جو دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کی گہرائی اور مستقبل قریب میں کشیدگی کے تسلسل اور فروغ کے امکان کو ظاہر کرتا ہے۔
یوکرین کی جنگ جو فروری 2022 سے شروع ہوئی ہے، نے بہت سی علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کو متاثر کیا جس میں سے ایک روس اور صیہونی حکومت کے درمیان کھلا تنازع ہے۔
روسی وزارت انصاف نے حالیہ میں"یہودی ایجنسی" کے نام ایک حکم نامے میں روس کی سرزمین میں اس کی تمام سرگرمیوں کو ممنوع کردیا ہے۔ وہ ایجنسی جو تقریباً ایک صدی قبل قائم ہوئی ہے اور اس نے 1948 میں صیہونی حکومت کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے کروڑوں یہودیوں کی نقل مکانی میں سہولت فراہم کی ہے۔
اس ایجنسی نے 1980 کی دہائی کے اواخر سے لے کر 1990 کی دہائی کے آخر تک سوویت یونین سے تقریباً ایک ملین تارکین وطن کو مقبوضہ علاقوں میں بھیجا ہے اور یوکرین میں بحران کے آغاز کے ساتھ ہی مقبوضہ علاقوں میں یوکرائنی پناہ گزینوں کی حوصلہ افزائی اور منتقل کرنے میں اس کا کردار مزید نمایاں ہو گیا۔
اس ایجنسی کے مطابق یوکرین کی جنگ کے آغاز سے بھی 16 ہزار پناہ گزینوں نے روس سے مقبوضہ فسلطین کا رخ کیا ہے۔
یہودی ایجنسی کو تحلیل کرنے کی تجویز کو پیش کرنے کے بعد، اسرائیلی وزیر اعظم یائیر لاپیڈ نے وزارت خارجہ کو حکم دیا کہ ماسکو کے خلاف "اقدامات کا پیکیج" تیار کرے جو ماسکو میں یہودی ایجنسی کے دفتر کو بند کرنے کی صورت میں روس کے خلاف اپنایا جائے گا۔
یوکرین کی جنگ نے کیسے ماسکو اور تل ابیب کے درمیان تنازعہ کو بھڑکایا
یوکرین پر روس کے حملے کے ساتھ صیہونی حکومت کے حکام نے اس بحران کی آگ سے بچانے کیلیے متوازن، غیر جانبدارانہ لیکن متضاد موقف اپنانے کی کوشش کی۔
اس حکومت کے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کی مسلسل کالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دونوں فریقوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرنا چاہتے تھے۔البتہ یہ مقبوضہ فلسطین میں کچھ اس پالیسی کےساتھ مخالف تھے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ماسکو کی زیادہ واضح مذمت کی جانی اور مغربی پابندیوں کی حمایت کی جانی چاہیے ۔ دوسری طرف، نیتن یاہو جیسے دوسرے گروپوں کا خیال تھا کہ تل ابیب کو ماسکو کے ساتھ اپنے تزویراتی تعلقات کو تباہ نہیں کرنا چاہیے۔
جنگ کی طوالت اور بحران کے روکنے میں تمام ثالثی اداکاروں کی ناکامی نے صیہونی حکومت کو مجبور کیا کہ وہ روس کے خلاف مغرب اور یورپی ممالک کے سفارتی دباؤ اور پابندیوں کی حمایت کرے۔
لاپیڈ نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں واضح طور پر کہاکہ یوکرین کے بحران میں ہم اپنے روایتی اتحادی 'امریکہ' کے ساتھ کھڑے رہیں گے اور اس مشکل صورتحال میں اسے تنہا چھوڑنا ممکن نہیں ہے۔
ہم انسانی حقوق کونسل HRC))میں ماسکو کے خلاف تل ابیب کے مثبت ووٹ کو روس اور صیہونی حکومت کے درمیان سنجیدہ کشیدگی کے نقطہ آغاز کو قرار دے سکتے ہیں ۔ 7 اپریل 2022 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ووٹوں کی اکثریت سے اس بین الاقوامی تنظیم کی انسانی حقوق کونسل میں روس کی رکنیت معطل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔
روسی کریملن محل نے صیہونی حکومت کے اس اقدام پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں کی خلاف ورزی کے ساتھ فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کر رہا ہے۔غزہ کی پٹی بنیادی طور پر ایک کھلی جیل میں تبدیل ہو چکی ہے جہاں کہ 2 ملین باشندے تقریباً 14 سالوں سے اسرائیل کی سمندری، فضائی اور زمینی ناکہ بندی کے تحت زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسرائیل یوکرین کی صورت حال کو غلط استعمال کرنے کے ساتھ ایک قدیم ترین تنازعہ یعنی فلسطین- اسرائیل کے درمیان تنازعہ سے عالمی برادری کی توجہ کو ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
تل ابیب کے حکام نے صیہونی حکومت کی جانب سے ماسکو کو انسانی حقوق کی کونسل سے نکالنے کے لیے روس مخالف قرارداد کی منظوری کے علاوہ ماسکو کے خلاف ایک اور اقدام کیا جس نے ماسکو کو شدید غصہ دلایا۔
اس رجیم کے حکام نے یوکرین میں روس کے اقدام کو جنگی جرم قرار دیا، اس حکومت کے کچھ لوگ یوکرین میں روسی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ صیہونی کنیسٹ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کی میزبانی کی اور صیہونی حکومت بھی یوکرین کو کچھ دفاعی سازوسامان بھیجنے کے آپشن پر غور کر رہی ہے۔
کشیدگی میں شدت اور اختلافات کو میدان میں لانا
ماہرین کے نقطہ نظر سے، تل ابیب کی طرف کریملن کے موقف اور اقدامات کا دو جہتوں، زبانی اور عملی سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ زبانی پہلو لفظی تصادم اور عملی پہلو سے مراد روس کی طرف سے اسرائیل مخالف اقدامات ہے۔
اپریل 2022 کو روس نے ایک بے تحاشا اقدام میں شام پر صہیونی حکومت کے ڈرونز کے آخری حملوں کی کچھ تفصیلات شائع کیں
اس کے ساتھ ہی، ہم نے مسجد اقصیٰ کے حالیہ واقعات کے حوالے سے کریملن کے صیہونی مخالف موقف کا مشاہدہ کیا۔
روس کی وزارت خارجہ نے 15اپریل کو فلسطینی نوجوانوں اور صہیونی فوج کے درمیان ہونے والی جھڑپوں جس میں 470 فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا اور 150 فلسطینی زخمی ہوئے، کے بعد اپنے ایک بیان میں صیہونی حکومت کی شدید مذمت کی۔
اگلے مہینے شام میں ایک نادر واقعہ پیش آیا۔ جبکہ صیہونی لڑاکا طیاروں نے جمعہ (13 مئی) کی رات 20:00 بجے شام کے شمال مغربی میں متعدد میزائل داغے، شام کے میزائل سسٹم نے S300" میزائل سے اس حملے کا مقابلہ کیا۔یہ پہلی بار ہے کہ شام ایس 300 میزائل کے ساتھ صہیونی کے فضائی اور میزائل حملوں کا جواب دیتا ہے۔
اس اقدام کے بعد صہیونی حکومت نے کھلے طور پر حفاظتی سامان بشمول ہیلمٹ اور بلٹ پروف واسکٹ پر مشتمل ایک کھیپ یوکرین کو بھیجا۔
توقع کی جا رہی ہے کہ روس اور یوکرائن کے درمیان تنازعات بڑھانے کے ساتھ مستقبل قریب میں دونوں فریقوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu