تہران (ارنا) ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایران کے بارے میں آسٹریلیا اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ اور دفاع کے مشترکہ بیان میں کئے گئے دعووں کو بے بنیاد، غیر حقیقت پسندانہ اور غیر متعلق قرار دیتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے جو نہ صرف مداخلت پسندانہ بلکہ بین الاقوامی قانون اور معیارات کے بھی خلاف ہیں۔

اسماعیل بقائی نے مقبوضہ فلسطین اور مغربی ایشیائی خطے میں غاصب صیہونی حکومت کے غیر قانونی اقدامات، جرائم اور جارحیت کے خلاف برطانیہ اور آسٹریلیا کی مسلسل حمایت کی یاد دہانی کراتے ہوئے ان ممالک کے یک طرفہ اور متعصبانہ موقف کی مذمت کی اور دمشق میں ایرانی سفارتخانے کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے بعد ایران کی جوابی دفاعی کارروائیوں، وعدہ صادق آپریشن 2-1  کو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جائز دفاع کے اصول کے مطابق قرار دیا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایران کی جانب سے روس کو بیلسٹک میزائل بھیجنے کے بار بار کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اس الزام کے دہرائے جانے کو بین الاقوامی تعلقات کی سلامتی کے نقصان اور یوکرین تنازعہ کو عالمگیریت بخشنے  کے لیے امریکہ اور برطانیہ کے منصوبے کے مطابق قرار دیا۔

بقائی نے واضح کیا کہ مغربی ایشیا کے عدم استحکام کی جڑ اور بنیادی وجہ صیہونی حکومت کے قبضے اور جارحانہ توسیع پسندی کا تسلسل ہے جس کو ہمیشہ سے امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور بعض دیگر مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے، اور یہ سلسلہ گزشتہ 14 ماہ کے دوران فلسطینی عوام کی نسل کشی اور جارحیت کی صورت میں لبنان، شام اور یمن میں جاری ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے انسانی حقوق کی سنگین اور وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں میں آسٹریلیا اور برطانیہ کے عمل دخل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں ان دونوں ممالک کی جیلوں اور پناہ گزینوں کے حراستی مراکز میں انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیاں، ان کی سرپرستی اور جرائم میں معاونت شامل ہے۔ ساتھ ہی بقائی نے فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی جارحیت پر دونوں مذکورہ ممالک کی حمایت اور  آسٹریلیا میں مقامی آبادی کے خلاف استعمار ی حربوں کے خاتمے پر زور دیا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے بارے میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی جوہری سرگرمیاں اور منصوبے ملک کی تکنیکی اور عملی ضروریات کے مطابق ہیں اور ایران کی ذمہ داریوں اور قانونی حقوق کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک رکن کی حیثیت سے قابل اجراء اور عدم پھیلاؤ کے معاہدہ اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے تحت ہیں۔