ارنا کے نامہ نگار کے مطابق، حسین امیرعبداللہیان کا دورہ پاکستان، ایران کے اسلامی انقلاب کی 45 ویں سالگرہ اور ایران و پاکستان کے دوطرفہ تعلقات کی 77 ویں سالگرہ کے موقع پرہورہا ہے۔ مذکورہ دورے میں علاقائی پیش رفت، فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کا تسلسل اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی پیدا کی ہوئی کشیدگی پر بھی بات چیت ہوگی۔ اس حوالے سے ایران اور پاکستان کے درمیان بھائی چارے کی تجدید کا نیا مرحلہ دونوں ممالک کے مشترکہ دشمنوں کے لیے واضح پیغام سمجھا جارہا ہے۔
اسلام آباد میں ایران کے سفیر نے ارنا کے نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ دو دوست اور ہمسایہ ممالک کے اعلیٰ حکام کے ایک دوسرے کے دارالحکومتوں کے دوروں کے بعد، ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان سیاسی، عسکری اور سیکورٹی وفد کے ہمراہ پیر کو پاکستان کا دورہ کریں گے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کے وزیر خارجہ کا متوقع دورہ پاکستان ثابت کرتا ہے کہ دہشت گردی اور اس کے پس پردہ حمایتی کبھی بھی دونوں برادر ہمسایہ ممالک کے درمیان اچھے تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات میں مثبت پیش رفت کے ایک اور مرحلے میں پاکستان کے سفیر محمد مدثر ٹیپو نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم کو اپنی سفارتی اسناد پیش کیں۔ اس موقع پرہونے والی گفتگو میں صدر ایران نے مشترکہ سرحدوں کے تحفظ اور ایران و پاکستان کی سرحدوں سے وابستہ تجارتی اور اقتصادی مواقع سے فائدہ اٹھانے پر زور دیا۔
پاکستان کے سفیر محمد مدثر ٹیپو نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے میں صدر رئیسی کے متاثر کن کردار کی تعریف کی اور خطے کے ممالک کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں ایرانی صدر کے واضح روڈ میپ کا خیرمقدم کیا۔
حالیہ سرحدی واقعات پر قابو پانے کے لیے ایران اور پاکستان کے سیاستدانوں کا مثبت اور دور اندیشی پر مبنی ردعمل ، سفارت کاری کو مشترکہ چیلنجوں بالخصوص دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کا موقع فراہم کرنے کا عزم اور ہمہ گیر تعاون خاص طور پر سیکورٹی کے شعبے کو مستحکم کرنے کے لیے ایک نیا روڈ میپ تیار کرنا ایران کے وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے دیگرمقاصد ہیں۔
چونکہ دہشت گردی کا موجودہ دور ہمسایہ اور قریبی ممالک جیسے ایران اور پاکستان کے گہرے تعلقات کو تباہ کرنا چاہتا ہے، اس لیے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط سفارت کاری کا تسلسل اور آپسی اعلیٰ عہدے داروں کی ملاقاتوں کو مشترکہ دشمنوں کی نقل و حرکت کا مقابلہ کرنے کی سمت میں موثر قدم سمجھا جاتا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کی وزارت دفاع کے سابق عہد یدار جنرل آصف یاسین ملک نے اسلام آباد میں ارنا کے رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ واقعات پر دونوں ممالک کی دانشمندانہ پالیسی نے ایران اور پاکستان کے مشترکہ دشمنوں اور بدخواہوں کو پہلے سے زیادہ مایوس کر دیا ہے اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دونوں پڑوسی ممالک عزم اور حوصلے سے دہشت گردی کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔
انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ اسلام آباد کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یہ دورہ ہمارے برادرانہ تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ ایران اور پاکستان ایک دوسرے کی مدد سے تمام مسائل کو حل کرنے اور مشکل چیلنجوں پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پاکستانی فوج کے ان ریٹائرڈ جنرل کا خیال ہے کہ تہران اور اسلام آباد کو تعاون کے لیے کسی نئے فریم ورک پرعمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کے سائے میں سابقہ طریقہ کار مشترکہ مقاصد اور موثر تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے موثر ہے۔
ایران میں پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد خان نے ارنا کے ساتھ انٹرویو میں امیر عبداللہیان کے دورہ اسلام آباد کو دونوں ممالک کے درمیان مسائل سے نمٹنے کے لیے مضبوط سفارت کاری کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور پاکستان علاقائی مسائل سے نمٹنے میں دوسرے دوست ممالک کی مدد کرینگے اور یہ بات ناقابل تردید ہے کہ دونوں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اجتماعی تحفظ فراہم کرنے میں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مشترکہ سرحدوں پر سیکورٹی کے مسائل کے بارے میں تہران کے خدشات جائز ہیں لیکن ہمیں اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے کہ ہمارے مشترکہ دشمن اختلافات کی آگ بھڑکانے اور سرحدی عدم تحفظ کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان گہرے تعلقات کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے سابق سیکرٹری جنرل نے ای سی او، شنگھائی اور جی ایٹ (آٹھ ترقی پذیر اسلامی ممالک کے گروپ) کے فریم ورک کے اندر علاقائی ہم آہنگی اور مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کے کردار کو اہم قرار دیتے ہوئے تاکید کی کہ ہمارے خطے کو بیرونی مداخلت کے بغیر ایران، پاکستان، چین، سعودی عرب، ترکی، ملائیشیا اور انڈونیشیا کی مشارکت سے ایک مضبوط اتحاد بنانے کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد میں قائداعظم یونیورسٹی کی فیکلٹی آف ڈیفنس اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز کی پروفیسر اور ڈین محترمہ شبانہ فیاض نے ارنا کے رپورٹر سکو بتایا کہ فعال سفارت کاری آج دونوں ممالک کی ضرورت ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ کا اسلام آباد کا دورہ فریقین کی محتاط سوچ کی نشاندہی کرتا ہے، جس کے تحت مذاکرات کو دوطرفہ تعلقات کے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کا بہترین طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا اس دوستی کے عوامل میں سے ایک فریقین کا خود شناسی ہے کیونکہ فوجی ہتھیار، اشتعال انگیز پوزیشنیں اور باہمی الزام تراشی کبھی بھی امن قائم نہیں کر سکتیں۔ اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ایران اور پاکستان کی جیو اکنامک سیکیورٹی دونوں پڑوسی ممالک کے جیو اسٹریٹجک تعاون سے جڑی ہوئی ہے۔
انہوں نے ایران اور پاکستان کو دو جسموں میں ایک جان قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں اطراف سے شفافیت اور عزم کے ساتھ ساتھ خود پر قابو رکھنا طویل المدتی مشترکہ مفادات پر مبنی بہتر سیکورٹی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم عنصر ہے کیونکہ پاکستان اور ایران دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کشیدگی کی حالت میں نہیں رہ سکتے.
شبانہ فیاض نے ایران اور پاکستان کے درمیان ثقافتی، علمی اور عوامی تعلقات کو وسعت دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دونوں طرف کے پرنٹ اور ٹیلی ویژن میڈیا کا ذمہ دارانہ کردار غلط معلومات اور نفرت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ناگزیر ہے۔
صدر ابراہیم رئیسی کی عوامی حکومت کی "پڑوسی پہلے" کی پالیسی کے ساتھ دونوں پڑوسی ممالک کے اعلیٰ حکام کی مسلسل ملاقاتیں اور ان کے درمیان مسائل کا جائزہ جامع تعاون کی راہ ہموار کرے گا۔