جمعہ کو مقامی اخبار میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے مشرق وسطیٰ کی تبدیلی میں حماس کے " طوفان الاقصیٰ " آپریشن کے تزویراتی نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسرائیلی قبضے کے خلاف غزہ میں جاری فلسطینیوں کی موجودہ جنگ اسرائیل اور امریکہ دونوں کے لیے وسیع اسٹریٹیجک نتائج کی حامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا: طوفان الاقصیٰ آپریشن اور ایران کی قیادت میں مزاحمتی محور کی طرف سے انجام پانے والے مضبوط اقدامات نے امریکہ اور اسرائیل کے غرور اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی نیز مقبوضہ علاقوں میں موجودہ غیر منصفانہ صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے باریک بینی سے بنائے گئے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے اور ان کے سارے خواب اب غزہ کی خاک میں دفن ہوگئے ہیں۔
حال ہی میں تہران انٹرنیشنل کانفرنس برائے فلسطین میں پاکستانی وفد کی قیادت کرنے والے سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ امریکیوں نے ایران کی قیادت میں مزاحمت کے محور کا مقابلہ کرنے اور مقبوضہ فلسطین کی موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے "جبر کا محور" تشکیل دیا۔ واشنگٹن کی کوشش تھی کہ چین کے خلاف نئی سرد جنگ کی تکمیل اور تقویت کے لیے اسرائیل کے محور پر قائم نئے مشرق وسطیٰ کو ہندوستان کے محور پر استوار"انڈو پیسفک" ریجن سے جوڑ دیا جائے۔
انہوں نے کہا امریکیوں کی کوشش تھی کہ فلسطینیوں کو نظر انداز اور مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، بین الاقوامی سمندروں میں اسرائیل کے ذریعے نیا راستہ نکالیں اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے مشرق وسطیٰ کو بزعم خویش محفوظ بنائیں، لیکن وہ اس بات سے غافل تھے کہ مزاحمتی محور امریکہ اور اسرائیل کے خفیہ منصوبوں سے پوری طرح آگاہ ہے ا ور 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن نے مغربی محاذ کے منصوبے پر پانی پھیر دیا ہے۔
سینٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ اسرائیل اور امریکہ کا "نیا مشرق وسطیٰ مائنس فلسطین" منصوبہ اور عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کے قیام کی پالیسی ناکام ہوتی جارہی ہے کیونکہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن یا استحکام ممکن نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب یہ افسانہ کہ اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس ناقابل تسخیر ہے اور یہ کہ اسرائیلی فوج اور موساد مشرق وسطیٰ میں سب سے "بہترین، ذہین اور طاقتور" ہیں اور اسرائيل ایک ناقابل تسخیر قلعہ ہے جس کی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آسکتی بظاہر غلط ثابت ہوگیا ہے کیونکہ فلسطینی مجاہدین نے ساتھ اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ کے ذریعے اس افسانے کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔
سینیئر پاکستانی سینیٹر نے فلسطین کی حمایت میں مزاحمتی محور کے دانشمندانہ اقدامات کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ اسرائیل اس وقت بوکھلاہٹ کا شکار ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ حماس، حزب اللہ اور یمن پر مشتمل مزاحمتی ٹرائيکا نے مشرق وسطیٰ میں سفارتی ٹیکنک اور فوجی اسٹرٹیجی کا زبردست مظاہرہ کیا ہے۔
پاکستان کی سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین نے امریکہ اور اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ نوشتہ دیوار پڑھ لو، غزہ میں نسل کشی بند، قبضہ ختم اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اقدامات کرو، کیونکہ یہودی تاریخ خوداپنی جگہ " Final Solution" کے نازی افسانے کے چکنا چور ہونے کی زندہ گواہ ہے۔ واشنگٹن کو عصری تاریخ میں اپنی غلطیوں اور ناکامیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔