لندن میں اشاعت ہونے والے غیر خطی اخبار "رای الیوم" کے مطابق، گلعاد نے مذکورہ ممکنہ حملے کو ایک "بہت بڑا خطرناک خطرہ" قرار دیتے ہوئے صہیونی ریاست کیجانب سے اس کاروائی نہ کرنے کی وجوہات کی وضاحت کی۔
ریزرو جنرل اور "ریخمان" یونیورسٹی سے وابستہ سیاسی اور اسٹریٹجک مرکز کے سربراہ گلعاد نے اپنی نئی تحقیق میں مزید کہا کہ ان وجوہات میں سے ایک ایران اور اس کے علاقائی شراکت دار بشمول لبنانی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کیجانب سے جوابی کاروائی سے صہیونی خوف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان طویل جغرافیائی فاصلے نے کاروائی کیلئے جنگی لڑاکوں کی مشن کو تقریبا غیر ممکن کردیا ہے۔ کیونکہ تل ابیب میں موجودہ ذرائع کے مطابق، جنگی لڑاکوں کو راستے میں ڈیزل ایندھن کی ضرورت ہے اور جب تک اسرائیل کے پاس ان لڑاکوں کے اترنے کیلئے کوئی اڈہ نہ ہو تب تک وہ یہ کاروائی نہیں کرسکتی۔
ان صہیونی عہدیدار نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکام بالخصوص اس ریاست کے انٹیلی جنس اداروں کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن سے گرین لائٹ حاصل کیے بغیر، اسرائیل اپنے نمبر ون حامی اور اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر خود کو امریکہ کا سامنا کرنے کی اجازت نہیں دے گا بالخصوص اس وقت جب امریکہ اس طرح کی کاروائی کا مخالف ہے اور اپنے اتحادی یعنی اسرائیل کیجانب سے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے مخالف کے برعکس وہ تہران سے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے متفق ہے۔
انہوں نے ناجائر صہیونی ریاست کی کارکردگی کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے اپنی فوجی قوت کی جلدی سے تشکیل کے بجائے ان جانے جوہات کی بنا پر اس سلسلے میں امریکی مالیاتی امداد کے استعمال کو تاخیر کا شکار کیا ہے۔
گلعاد نے امریکی کی قیادات میں ایک دفاعی نظام کی تعمیر کی ضرورت پر زوردیا اور اور تل ابیب کی واشنگٹن سے ہم آہنگ کو ایک ضروری اقدام قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ حتی اگر اسرئیل کے پاس ایران کیخلاف وار کرنے کی آزاد فوجی طاقت بھی ہو تو وہ اس حملے کے ممکنہ اثرات سے واشنگٹن سے بغیر اسٹریٹجک ہم آہنگی سے اس کاروائی کا خیال بھی نہیں کرسکتا۔
گلعاد نے ایرانی کے سیاسی نظام کو ایک مستحکم نظام قرار دیتے ہوئے اس بات پر زوردیا کہ صہیونی ریاست اب سیاسی کشیدگی اور انتشار کا شکار ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک کو انتظام کرنے کیلئے اس رجیم کے حکام کی طاقت میں کمی آئی ہے۔
انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ایران نے بیلسٹک میزائلوں کی تعمیر میں انتہائی ترقی کی ہے اور اسرائیل کو اب ایران اور لبنان، شام، یمن اور کسی حد تک عراق جیسے ممالک میں آگ کی پٹی کا سامنا ہے اور اب صرف لبنان ہی میں 150 ہزار میزائل موجود ہیں جس نے اس ملک کی طاقت میں بڑا اضافہ کیا ہے۔
رای الیوم نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ان صہیونی عہدیدار نے اپنی تحقیق میں غزہ پٹی میں فلسطینیوں کے پاس موجودہ میزائلوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔ حالانکہ مئی مہینے میں ٹی وی سے نشر کی گئی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ حماس تحریک کی سیاسی شاخ نے "سیف القدس" کاروائی میں اسرائیلی شہروں اور قصبوں کو نشانہ بنانے والے 362 میزائل شامل اپنے حملے کو معطل کردیا۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu