تہران، ارنا - "منافقین" ایک اصطلاح ہے جو اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد کے سالوں میں اسلامی جمہوریہ کے مرحوم سپریم لیڈر امام خمینی نے "عوامی مجاہدین تنظیم ایران" کے لیے استعمال کیا۔

مجاہدین خلق تنظیم ایک ایسا گروہ تھا جس نے 20 جون 1981 کو ایران میں دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کیں۔

اس گروپ نے اب تک 12 ہزار سے زائد قتل کیا ہے۔

اس گروہ کے متاثرین میں ایرانی اہلکار اور عام لوگ دونوں شامل تھےاور متاثرین کی عمر کی حد تین سال سے 89 سال تک ہے ۔

لوگوں کا اندھا دھند اور اجتماعی قتل، اسلامی جمہوریہ پارٹی کے دفتر میں دھماکہ اور اس وقت کے عدلیہ کے سربراہ سمیت 72 ایرانی عہدیداروں کا قتل، اعلیٰ فوجی کمانڈروں کا قتل،  ایران کے اس وقت کے صدر اور وزیر اعظم کا قتل اس تنظیم کے جرائم میں سے ایک ہیں۔

یہ گروپ 1985 کو ایران سے فرار ہو کر عراق میں داخل ہو گیا اور گروپ کے اس وقت کے سرغنہ' مسعود رجوی'  نے عراقی ڈکٹیٹر صدام کے ساتھ ملاقات کے بعد 1980-1988 کی آٹھ سالہ جنگ میں ایران کے خلاف عراق کے ساتھ باہمی تعاون کیا۔

اس گروپ کے جرائم اس قدر نمایاں اور قلمبند ہیں جو ایرانی عوام ان کو نہیں بھول سکتے ہیں اور ملک کی تمام سیاسی پارٹی اس گروپ سے نفرت کرتی ہیں حتیٰ کہ ایرانی اپوزیشن بھی اس گروپ کے ساتھ ذرا سا بھی تعاون کرنے سے گریزاں ہے۔

ایسے میں سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے سخت ترین حفاظتی اقدامات کے تحت گروپ کے ہیڈ کوارٹر میں حاضر ہوکر اعلان کیا کہ وہ خود کو اس گروپ کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔

وسیع پیمانے پر قتل و غارت، گھناؤنے قتل جیسے جلانا، سر قلم کرنا، کاٹنا، اور ان گنت دیگر واقعات اس دہشت گرد گروہ کی کارروائیوں کی فہرست میں شامل ہیں اور ان دہشت گردانہ کارروائیوں کے کچھ حصوں کی رپورٹیں مجاہدین خلق تنظیم کے سرکاری میگزین "مجاہد" میں شائع ہوئی ہیں۔

اس دہشت گرد گروہ کے چند جرائم درج ذیل ہیں:

1988 کے قتل عام

1988 میں منافقین کے جرائم کی شرح تقریباً 1980 میں ان کے جرائم کے عروج کے برابر ہے۔ صرف ایک سال میں 1503 افراد کا قتل منافقین کے جرائم کا ایک حصہ ہوتا ہے۔

1983-1984 میں قتل عام

اس دہشت گرد گروہ نے اپریل 1983 سے مارچ 1984 کے درمیان تہران، شیراز، اہواز، قم، اصفہان، مازندران، ہمدان، گیلان، سمنان، تبریز، کردستان وغیرہ کے شہروں میں4583 ایرانی شہریوں کو قتل کیا۔

*تہران میں شہریوں کا قتل عام

*تہران میں شہریوں کا قتل عام

منافقین نے 22 فروری 1982 کو تہران کے عشرت آباد اسکوائر میں بم دہماکے سے 11 شہریوں کو ہلاک اور 25 کو زخمی کر دیا۔

یکم اکتوبر 1982 کو امام خمینی اسکوائر میں زیباپارک نامی ایک ہوٹل کے قریب اور ٹیلی کمیونیکیشن بلڈنگ کے قریب ایک اور بم دھماکہ ہوا جس میں 64 ایرانی شہری مارے گئے۔

شیعوں اور عراقی کردوں کے خلاف منافقین کے جرائم

منافقین کے قتل صرف ایرانی حکام اور عوام کے خلاف نہیں ہیں۔ اس تنظیم کے ارکان نے عراق میں اپنی موجودگی کے دوران صدام کی حمایت سے ہزاروں عراقی کردوں یا شیعوں کو قتل کیا۔ اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ منافقین نے مسلط کردہ جنگ کے بعد اور عراق میں بعثی حکومت کی حمایت میں "مروارید" نامی آپریشن میں کردوں کی نسل کشی کی۔

٭مجاہدین خلق تنظیم کی تخریب کاری اور دہشت گردانہ کارروائیوں پر یورپ اور امریکہ کی نظر اندازی

پچھلی دو تین دہائیوں میں یورپ میں مقیم منافقین نے ایرانی سفارت خانوں پر بھی حملے کے ساتھ ساتھ  یورپیوں کے خلاف تخریب کاری کی متعدد کارروائیاں کیں۔

پچھلے سال (2021) البانیہ میں مجاہدین کے متعدد ارکان کو منشیات کی اسمگلنگ، انسانی سمگلنگ اور منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

2003 میں، فرانسیسی پولیس نے مریم راجوی سمیت 17 افراد کو ایک دہشت گردی کی کارروائی ملوث افراد کے ساتھ تعاون کے الزام پر گرفتار کیا۔

2008 میں منی لانڈرنگ کے الزام میں سوئٹزرلینڈ اور فرانس میں منافقین کے متعدد ارکان کو گرفتار کیا گیا۔

 2018 میں بیلجیم میں منافقین کے دو ممبرز کو گرفتار کیا گیا لیکن ان تمام واقعات میں سیاسی وجوہات کی بنا پر اس گروہ کے غیر قانونی اقدامات کو نظر انداز کر دیا گیا۔

امریکی محکمہ خارجہ نے 2012میں ہیلری کلنٹن کے دور حکومت میں سیاسی مقاصد کے ساتھ اس گروپ کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا۔جب کہ اس گروپ نے متعدد امریکی شہریوں کو بھی قتل کیا ہے۔ 2009 میں یورپی یونین نے اس دہشت گرد گروپ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا۔

* حمید نوری کا مقدمہ اور منافقین کا دعوی

2019 میں اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ کے ایک ریٹائرڈ ملازم حمید نوری کو سویڈن کے شہر سٹاک ہوم کے ہوائی اڈے پہنچنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کی وجہ 1988 میں مجاہدین خلق تنظیم کے بعض ارکان کو پھانسی دینے میں ان کا کردار ہے۔جبکہ وہ اس وقت ایرانی جیلوں کی تنظیم کا ملازم تھا۔ اب تک، اس پر مقدمہ چلانے کے لیے تقریباً سو سماعتیں ہو چکی ۔

ایرانی عدلیہ کے سربراہ 'ذبیح اللہ خداییان' نے حمید نوری کے کیس کے بارے میں کہا کہ یہ کیس سیاسی ہے اور کوئی عدالتی کیس نہیں ہے اور سوئڈن نے حمید نوری کے لیے کم از کم بین الاقوامی معیاروں پر عمل نہیں کیا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نےاپنے سویڈش ہم منصب آن لینڈہ کے ساتھ ایک ٹیلی فونک رابطے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سویڈن میں ایرانی شہری حامد نوری کے مقدمے کی سماعت سمیت اہم دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔
امیرعبداللہیان نے ایرانی شہری حمید نوری کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران اس شہری کی گرفتاری اور مقدمہ چلانے کو غیر قانونی سمجھتا ہے اور اس کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ سابق عراقی صدر صدام کی بعثی حکومت کے دور میں ایرانی عوام اور حتی عراق کے خلاف جرائم کی تاریخ رکھنے والے دہشت گرد گروپ نے سویڈن میں اس فائل کو مصنوعی طور پر گھڑنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

ایرانی عدلیہ کے مطابق سویڈن اس وقت اس دہشت گروپ 'مجاہدین خلق کی تنظیم ' کے دعوے اور الزامات کی بنیاد پر حمید نوری کے خلاف مقدمہ چلا رہا ہے جبکہ منافقین کے ارکان کی گواہی کے علاوہ اس شخص کے خلاف ابھی تک کوئی سنگین اور قابلِ ذکر ثبوت پیش نہیں کی گئی ہے۔

واضح ہے کہ 60سالہ ایرانی شہری'حمید نوری' کو نومبر 2019 میں اسٹاک ہوم کے ہوائی اڈے پر گرفتار کیا گیا تھا، ان کے مقدمے کی سماعت گزشتہ سال اگست میں شروع ہوئی تھی۔ حال ہی میں، ایک عدالتی سیشن کے دوران، سویڈن کے استغاثہ نے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر نوری کو عمر قید کی سزا کا مطالبہ کیا۔

یہ بلا وجہ نہیں ہے کہ مقامی سویڈش میڈیا حمید نوری کے مقدمے کی وضاحت کے لیے "عجیب مقدمہ" کا عنوان استعمال کرتا ہے۔ اس مقدمے کا منافقین کے دہشت گرد گروہ کی جانب سے اغوا جیسی کارروائی کے ساتھ آغاز ہوا اور جعلی دستاویزات کے ساتھ آگے بڑھا۔

سویڈن کے پراسیکیوٹر کے دفتر نے گزشتہ ہفتے منافقین کے دہشت گرد گروپ کے ارکان کے بیانات کی بناپر ایک ایرانی شہری حمید نوری کو عمر قید کی سزا سنانے کی درخواست کی تھی لیکن نوری نے اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کر دیا ہے اور کہا کہ وہ ان سب کو سویڈن میں رہنے والے منافقین اور کچھ مخالف انقلابی شخصیات کی ملی بھگت کا نتیجہ سمجھتا ہے۔

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

لیبلز