ارنا کی رپورٹ کے مطابق، خواجہ محمد آصف نے جمعرات کو ایک پاکستانی نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے، پاکستانی کی جانب سے "عزم استحکام" نامی ایک نئے فوجی آپریشن کے نفاذ کے حالیہ فیصلے کے بارے میں کہا کہ بدقسمتی سے دہشت گردی کے مسئلے نےافغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اسلام آباد کو اپنے مغربی پڑوسی سے موثر تعاون حاصل نہیں ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ افغانستان کی نگران حکومت مشترکہ سرحدوں پر دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہی۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغان طالبان، پاکستان تحریک طالبان گروپ کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں اور ہماری سرحدوں پر افواج اور سیکیورٹی کی نقل و حرکت میں تعاون کے حوالے سے رکاوٹ ہے۔
خواجہ آصف نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف تعاون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس اہم معاملے میں ایران کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے میں ہمیں تہران کی حمایت حاصل ہے۔
انہوں نے تاکید کی کہ نئے فوجی آپریشن میں سیکیورٹی میں خلل ڈالنے والوں اور دہشت گردانہ حملوں کے ماسٹرمائنڈذ کی نشاندہی پر خصوصی توجہ دی جائے گی اور اس کا دائرہ کار خیبر پختونخوا اور بلوچستان ہوگا۔
ہفتہ (22 جون) کو وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت نیشنل ایکشن پلان پر مرکزی ایپکس کمیٹی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں وفاقی کابینہ کے اہم وزرا بشمول نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ، وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر خزانہ، وزیر قانون، وزیر اطلاعات، تمام صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، سروسز چیفس، صوبوں کے چیف سیکریٹریز کے علاوہ دیگر سینئر سویلین، فوجی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران شریک تھے۔
اجلاس میں دہشت گردی اور انتہا پسندی سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے نئے فوجی آپریشن " عزم استحکام" کا اعلان کیا گیا۔
2007 کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف بڑے پیمانے پر یہ چوتھا فوجی آپریشن ہے، جو ملک میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور اس کے حامیوں کی وجہ سے اندرونی خطرات کی وجہ سے کیا جارہا ہے۔
آپریشن "راہ نجات"، "ضرب عضب" اور "رد الفساد" پاک فوج کے 3 فوجی آپریشن ہیں جو گزشتہ 10 سالوں (2007 سے 2017) میں نافذ کیے گئے۔