وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے پیر کے روز جینوا میں ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے فلسطین کے سلسلے میں وزراء کی سطح پر ایک ذیلی اجلاس میں شرکت کی۔
وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں کہا: اس چھوٹے سے علاقے میں صیہونی حکومت پانچ مہینوں سے قتل عام کر رہا ہے ۔ اس دوران غزہ کے 30 ہزار لوگ مار جا چکے ہیں کہ جن میں سے 70 فیصد بچے اور خواتین تھیں ، یہ انسانی تاریخ میں بچوں کے قتل کے سب سے ہولناک اعداد و شمار ہیں۔
انہوں نے کہا: غزہ میں دو طرح سے نسل کشی جاری ہے ۔ کچھ لوگ صیہونی فوج کے حملوں میں مارے جا رہے ہيں جبکہ کچھ دوسرے لوگ صیہونی محاصرے کی وجہ سے بھوک سے دھیرے دھیرے مر رہے ہيں۔ شمالی غصہ میں حالات اور زيادہ خراب ہیں جہاں 6 لاکھ فلسطینی اب بھی موجود ہيں اور اپنے بچوں کا پیٹ گھاس پھوس اور پتوں سے بھر رہے ہيں۔
وزیر خارجہ نے کہا: غزہ میں ایک اور المیہ رونما ہو رہا ہے کیونکہ صیہونی حکومت رفح پر وسیع حملے کی تیاری کر رہی ہے اور یہ وہ علاقہ ہے جہاں غزہ پٹی کی آدھی آبادی پناہ لئے ہوئے ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا: ہمارا ماننا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کے لئے اسلحے کی ترسیل نا قابل معافی غلطی ہے۔ اسرائیل فلسطینی عوام کو کسی بھی طرح کا حق دینے کا قائل نہيں ہے بلکہ وہ غزہ اور غرب اردن کے فلسطینیوں کو زبردستی مصر اور اردن بھیجنے کی کوشش میں ہے۔
وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے کہا: بڑے افسوس کی بات ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی اسٹریٹجک غلطیوں کی وجہ سے علاقے میں جنگ کا دائرہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ امریکہ و برطانیہ علاقے میں بحران کو پھیلنے سے روکنے کی بار بار بات کرتے ہيں لیکن یمن کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی کرکے اور اس ملک پر حملہ کرکے عملی طور پر جنگ کا دائرہ پھیلا رہے ہيں۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کے سلسلے میں سلامتی کونسل کی جس طرح کی خاموشی کا ہم مشاہدہ کر رہے ہيں وہ سفارت کاری کے شعبے میں اس صدی کا سب سے بڑا المیہ ہے اور اسرائیل کے جرائم کا جاری رہنا اور جنگ کے دائرے میں توسیع یقینی طور پر عالمی امن و امان کے لئے خطرہ ہے۔