صدر سید ابراہیم رئيسی نے پہلی "الاقصی طوفان اور انسانی ضمیر کی بیداری " کانفرنس میں اتوار کی صبح تقریر کے دوران کہا: آج اسلامی امت کا سب سے اہم مسئلہ، فلسطین کا مسئلہ ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ، عالم اسلام کا سب سے پہلا مسئلہ ہے اور بیت المقدس کی آزادی، عالم اسلام کی ترجیحات میں ہے اور اس میدان میں شکست صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کو ہونے والی ہے۔ الاقصی طوفان کا 7 اکتوبر سے جائزہ لینا، بیچ سے جائزے کی طرح ہے ۔ ہمیں فلسطین کے مسئلے کو 70 برسوں سے جاری ظلم و غاصبانہ قبضے کے مسئلے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ حالانکہ غرب اردن مسلح نہيں ہے لیکن حالیہ دنوں میں اس علاقے کے 200 لوگ شہید ہوئے ہيں۔
صدر ایران نے کہا: ہم نے بارہا واضح الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسیوں میں فلسطین اور مزاحمتی تنظیموں کی حمایت ایجنڈے میں ہے آخر کس طرح ایسے لوگوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے جن پر ہر طرف سے ظلم ہو رہا ہو، جو اپنے دین، اپنے اہل خانہ کی قانونی حفاظت کر رہا ہے اس کی حمایت کی ہی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا: فلسطین کی حمایت کا پرچم امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بلند کیا تھا اور رہبر انقلاب اسلامی نے اس مدت کے دوران اس پرچم کو پوری طاقت سے بلند رکھا اور جن لوگوں نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوشش کی انہیں ہمیشہ یہی سمجھایا کہ صیہونی حکومت سے تعلقات قائم کرنے سے تحفظ حاصل نہيں ہوگا، نہ ہی علاقائي ملکوں کو اور نہ ہی صیہونی حکومت کو۔
صدر سید ابراہیم رئیسی نے کہا آج عالمی سطح پر انسانی ضمیر کو کس چیز نے بیدار کیا ہے ؟ یقینا فلسطینی شہیدوں اور بچوں کے پاکيزہ خون نے دنیا کی سامنے سے نادانی کا پردہ ہٹا دیا ہے ۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ آج دنیا بھر کے انسانوں کا ضمیر بیدار ہو چکا ہے اور اسلامی امت کے شانوں پر بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورت حال کو قائم رکھے۔
صدر ایران نے کہا: مجھے یقین ہے کہ جن ملکوں کے نمائندے آج اس کانفرنس میں حاضر ہيں اگر حالات سازگار ہوں تو وہاں کے عوام اپنی فوجوں کے ساتھ فلسطین کی سمت روانہ ہو جائيں گے۔ آج پوری اسلامی امت، فلسطین کے دفاع کے لئے آمادہ ہے ۔
صدر نے کہا: اگر اسلامی ملک رہبر انقلاب اسلامی کی طرف سے اتحاد کی صدا پر لبیک کہتے تو کیا صیہونی حکومت میں آج اتنے جرائم کی جرات پیدا ہوتی ؟ جس دن غزہ کے خلاف اسرائیلیوں کی جارحیت شروع ہوئی اگر اسلامی ممالک اپنے معاشی تعلقات اسرائیل سے ختم کر لیتے تو کیا ہم اب تک اس کے جرائم کو جاری رہتے دیکھتے؟ یقینا حالات مختلف ہوتے اور یقینا جن ملکوں کے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات ہيں انہيں خداوند عالم، اپنے ضمیر اور تاریخ کو جواب دینا ہوگا۔
صدر ایران نے کہا: آج غزہ کے خلاف جارحیت کو 100 دن گزر رہے ہيں اور بین الاقوامی عدالت تشکیل پا چکی ہے ۔ ان حالات میں صیہونیوں اور امریکیوں کی کوشش ہے کہ اس عدالت کو اس کے راستے سے ہٹا دیں میں اس عدالت کے ذمہ داروں سے کہتا ہوں کہ آج سب سے پہلے تو وہ خدا کے سامنے اور پھر انسانی ضمیروں اور تاریخ کے سامنے اس ظلم کے سلسلے میں جواب دہ ہیں ۔ اگر عدالت منصفانہ فیصلہ کرتی ہے تو یقین کریں وہ سر بلند ہوگی اس کے بعد جس طرح اس پر عمل ہوگا وہ دوسرا مسئلہ ہے لیکن انسانیت اس فیصلے کی قدر دانی کرے گی۔ اس کانفرنس اور انسانیت کو توقع ہے کہ عدالت منصفانہ فیصلہ کرے گی۔
صدر سید ابراہیم رئيسی نے کہا: کسی کو بھی اس بات سے اختلاف نہيں ہے کہ غاصبانہ قبضہ جاری رہنے کے نتیجے میں صرف سزا میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے ہرگز قبضے کا جواز یا ملکیت حاصل نہیں ہوتی لیکن کجھ حلقے کسی اور ہی سمت جا رہے ہيں۔ فلسطین کے مسئلے کی راہ حل فقط وہی ہے جس کا اعلان اسلامی جمہوریہ ایران اور رہبر انقلاب نے فخر کے ساتھ بیان کیا ہے، دین و ملت و قوم سے ہٹ کر ہر فلسطینی کو ووٹ کا حق حاصل ہو اور ایک مکمل جمہوری عمل کے تحت ووٹنگ کی جائے اور اس کے نتیجے کا اعلان کیا جائے۔