اسلامی جمہوریہ ایران کی خبر رساں ایجنسی (ارنا) کے سی ای او علی نادری نے اتوار کے روز جدہ میں فلسطین کے مسئلے کے بارے میں غلط معلومات اور تعصب کا مقابلہ کرنے سے متعلق "نفرت اور تشدد کو ہوا دینے میں میڈیا اور اس کا کردار: گمراہ کن اور جانبداری کے خطرات" کانفرنس میں کہا کہ غزہ کی حالیہ جنگ کے دوران جعلی خبروں کو غیر اخلاقی ہتھیار کے طور پر بہت زیادہ استعمال کیا گیا جس کی ایک مشہور مثال اسرائیل میں حماس کے ہاتھوں مبینہ طور پر بچوں کے سر قلم کرنا تھی۔ لیکن جب پیشہ ور صحافیوں نے اس خبر کی تصدیق کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ یہ دعویٰ جھوٹ تھا۔ پھر صیہونی حکومت کی جانب سے دوسرے دعوے کیے گئے، مثال کے طور پر، فلسطینیوں نے غلطی سے المعمدانی ہسپتال پر بمباری کی، جو بے بنیاد نکلی اور کچھ ہی عرصے بعد یہ بھی انکشاف ہوا کہ "ریم" میلے کے شرکاء پر فائرنگ ایک اسرائیلی ہیلی کاپٹر نے کی تھی، لیکن پروپیگنڈا مشینری نے اسے دوسرے فریق سے منسوب کیا۔ پھر ایک مشہور امریکی صحافی نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی فوج نے بیری شہر پر بمباری کی اور دعویٰ کیا کہ حماس نے وہاں کے مکانات کو آگ لگا دی ہے۔
ارنا کے سی ای او کے مطابق، غزہ کی جنگ میں سب سے اہم جعلی خبروں میں سے ایک شفا ہسپتال کے تہہ خانے میں سرنگوں اور حماس کے کمانڈ سینٹر کی تلاش کا دعویٰ تھا جس کو اس بار CNN نے جعلی ثابت کیا۔
علی نادری نے کہا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی جنگ میں صیہونی حکومت کی مجرمانہ بمباری سے جاں بحق ہونے والے 13 ہزار فلسطینی شہریوں میں سے 5 ہزار سے زیادہ بچے ہیں۔
یہ جرم اتنا بڑا ہے کہ اس کے مجرم، لوگوں کی توجہ اس انسانیت سوز المیہ سے ہٹانے اور رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے جھوٹی خبریں پھیلانے پر مجبور ہونگے تاکہ کم سے کم لوگوں کو 40 دنوں میں 5 ہزار بچوں کے قتل جیسے دلخراش سانحہ کے بارے میں معلوم نہ ہو سکے۔