ارنا رپورٹ کے مطابق، "علی باقری کنی" نے جمعرات کو اے این آئی سے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کہا کہ مہسا امینی کو قتل نہیں کیا گیا، ان کا انتقال ہوگئیں، لیکن جو اب ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایران میں ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے جو ماحول بعض مغربی میڈیا نے بنایا ہے، یہ ماحول بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے جب کہ ہر کوئی دیکھ رہا ہے کہ ان مغربی طاقتوں کے ہاتھوں ایرانی قوم کے حقوق پامال ہوتے رہے ہیں۔
انہوں نے جو ایران اور بھارت کے درمیان سیاسی مشاورت کیلئے بھارت کا سفر کیا ہے کہا کہ مغربی طاقتیں افغانستان، فلسطین یا یمن کے عوام کے بارے میں بات نہیں کرتیں۔ وہ ان حرکتوں کی مذمت یا بریت نہیں کرتے، ان لوگوں کے اصل قاتل کون ہیں؟
باقری کنی نے بدھ کے روز کو بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے ایک ملاقات میں باہمی اور علاقائی مسائل پر مذکرات کیے؛ باقری نے اس ملاقات سے متعلق کہا کہ کل، انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ کیساتھ ایک بہت نتیجہ خیز ملاقات کی، اور اس ملاقات کے دوران، ہم نے دو طرفہ تعلقات کے اہم ترین امور پر تبادلہ خیال کیا اور دونوں فریقوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں آنے والے دور میں اپنے تعاون کو مزید مضبوط کرنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور ایک دوسرے کیساتھ رابطے جاری رکھنے کے لیے مشاورت اس ملاقات کے نتائج کا ایک حصہ تھی۔
نائب ایرانی وزیر خارجہ برائے سیاسی امور نے اقتصادی اور تجارتی تعلقات سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی میدان میں بہت زیادہ تعاون ہے اور دونوں شراکت دار ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور ہماری معیشت ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہے؛ ایران کے پاس توانائی کے بہت زیادہ وسائل ہیں اور اس وجہ سے وہ بھارت کو توانائی فراہم کر سکتا ہے اور اس کی توانائی کی حفاظت کو بڑھانے میں مدد کر سکتا ہے۔ دوسری طرف، بھارت خوراک فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے اور ایران کی غذائی تحفظ میں مدد کر سکتا ہے۔
انہوں نے تہران اور دہلی کے درمیان تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دوطرفہ اقتصادی تعاون کے علاوہ ہم دوسرے ممالک بالخصوص خطے میں مدد کرنے میں وسیع تعاون کر سکتے ہیں۔ بھارت اور ایران دونوں ممالک کی اقتصادی اور تکنیکی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے اس ملک سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد خطے کے ممالک بالخصوص افغانستان کی مدد کر سکتے ہیں۔
باقری نے بھارت کے تیل فراہم کرنے والے کے طور پر ایران کے ماضی کے کردار کے بارے میں کہا کہ ایران دوسرے ممالک بالخصوص بھارت کو توانائی فراہم کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہا ہے۔یہ دوسرے ممالک میں استحکام قائم کرنے کی ہماری پالیسی کے مطابق ہے، مغربی ممالک دنیا پر ایسی پالیسیاں مسلط کر رہے ہیں جو ان کے اپنے مفادات کی ضمانت ہیں، ان پالیسیوں نے معیشت اور توانائی کی منڈی میں خلل پیدا کیا ہے۔
انہوں نے امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی طرف سے تیل فراہم کرنے والے تین بڑے ممالک ایران، روس اور وینزویلا پر پابندیاں عائد کرنے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ان اقدامات سے انہوں نے دنیا کی توانائی کی سلامتی کو غیر مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
نائب ایرانی وزیر خارجہ برائے سیاسی امور نے چابہار بندرگاہ سے متعلق کہا کہ بھارتی فریق کے ساتھ میری بات چیت کا ایک اہم نکتہ چابہار پر بھارت کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا اور چابہار پروجیکٹ کی تکمیل کو تیز کرنا تھا جس پر ہم نے اب تک اچھی پیش رفت کی ہے لیکن اس منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لیے ابھی بھی کوششوں اور تعاون کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ نہ صرف ایران اور بھارت کے لیے بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی اہم ہے اور یہ شمال جنوب بین الاقوامی ٹرانزٹ کوریڈور کو مکمل کرنے اور ہمارے علاقے کو جوڑنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu