تہران۔ ارنا۔ اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے نے یوکرین کے تنازعے کے نقصانات کے اندراج اور معاوضے کے لیے ایک میکنزم تشکیل دینے کی قرارداد سے متعلق کہا کہ اگر وہاں کی خلاف ورزیوں کو رجسٹر کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے میکنزم تشکیل دینے کا ارادہ ہے یہ بین الاقوامی قانون کے مطابق ایک عالمگیر طریقہ کار ہونا ہوگا جس میں صدام جیسی مجرمانہ حکومتوں کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور کیمیائی ہتھیاروں کی فراہمی سمیت تمام واقعات شامل ہوجائیں۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 11ویں ہنگامی اجلاس کے دوران یوکرین کی جانب سے "یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کے لیے معاوضے سے متعلق دفعات" کے عنوان سے پیش کردہ قرارداد کے حق میں 94 اور مخالفت میں 14 ووٹوں سے منظوری دی گئی؛ 73 ممالک نے اس ووٹ دینے سے گریز کیا۔

یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے اور یوکرین کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانے کی ضرورت کی نشاندہی کرتے ہوئے، یہ قرارداد تجویز کرتی ہے کہ یوکرین کی حکومت کی شراکت سے روس کی طرف سے یوکرین کو پہنچنے والے نقصان کو ریکارڈ کرنے اور محفوظ کرنے کے لیے ایک طریقہ کار تشکیل دیا جائے۔

اس قرار داد کی منظوری کے دوران، جسے مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے، نیویارک میں روس کے سفیر اور مستقل نمائندے نے اس طریقہ کار کی شدید مخالفت کی اور اس اقدام کو قانونی جواز کا فقدان اور مغرب کی جانب سے ضبط کی گئی جائیداد کو قانونی حیثیت دینے اور ضبط کرنے کی کوشش قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ مغرب کا اس طریقہ کار کی حمایت کرنے کا پوشیدہ ہدف یوکرین کو اسلحے کی امداد کے بدلے روسی املاک کو لوٹنا ہے جو دراصل جنگ کے جاری رہنے اور امریکی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے مفادات کی فراہمی کرنا ہے۔

کئی آزاد ممالک نے مذکورہ قرارداد کو سیاسی قرار دیتے ہوئے یوکرائن میں جاری تنازعے کے لیے ایک منفرد طریقہ کار تشکیل دینے اور مغربی ممالک کے جرائم اور غیر قانونی اقدامات کو نظر انداز کرنے کیلئے منافقانہ فعل قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی کے پاس ایسا طریقہ کار بنانے کے لیے قانونی اختیار کا عدم فقدان ہے۔

نیویارک میں اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مستقل نمائندے اور سفیر "امیر سعید ایروانی" نے اس تنظیم کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران، اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کا احترام کرنے کی ضرورت کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کے اصولی موقف پر زور دیا۔

انہوں نے یوکرین میں جاری تنازعے میں اقوام متحدہ کے آزادانہ کردار کو برقرار رکھنے کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ مسودے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فرائض اور ایجنڈے کے دائرہ کار سے باہر ادب کے ساتھ معاملہ کیا گیا ہے جس کی اگر منظوری دی گئی تو مذکورہ تنازعہ کو ختم کرنے میں کوئی حقیقی شرکت نہیں ہو گی اور یہ صرف چند ممالک کے قبضے میں ایک سیاسی آلہ بن جائے گا۔

ایران کے مستقل نمائندے نے عالمی جرائم کی طویل تاریخ کی طرف بھی اشارہ کیا جن میں فوجی قبضے، پابندیاں، املاک کی لوٹ مار، قبضے اور نسل پرستی شامل ہیں اور کہا کہ یوکرین کے تنازعے کے نقصانات کے اندراج اور معاوضے کے لیے ایک میکنزم تشکیل دینے کی قرارداد سے متعلق کہا کہ اگر وہاں کی خلاف ورزیوں کو رجسٹر کرنے اور ان سے نمٹنے کے لیے میکنزم تشکیل دینے کا ارادہ ہے یہ بین الاقوامی قانون کے مطابق ایک عالمگیر طریقہ کار ہونا ہوگا جس میں صدام جیسی مجرمانہ حکومتوں کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور کیمیائی ہتھیاروں کی فراہمی سمیت تمام واقعات شامل ہوجائیں۔

انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران نے روایتی بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں بشمول ریاستی املاک کے عدالتی استثنی کے احترام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، بین الاقوامی قوانین کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کرنے والے کسی بھی طریقہ کار کی سخت مخالفت کا اظہار کیا اور مزید کہا کہ ایرانی حکومت اس قرارداد کی انتظامی شقوں پر مبنی کسی بھی اقدام اور فیصلے کو قانونی جواز کے بغیر سمجھتی ہے۔

واضح رہے کہ مغربی ممالک کے سیاسی دباؤ کے باوجود، اس قرارداد کی قانونی اور انتظامی نوعیت کے بارے میں شکوک و شبہات اور سنجیدہ غور و فکر کے باعث، ممالک کے ایک قابل ذکر حصے نے ووٹنگ میں حصہ لینے سے گریز کیا اور پرہیز کرتے ہوئے اس قرارداد پر اپنے اعتراضات کا اظہار کیا۔اس قرارداد کی منظوری کے باوجود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کی سیاسی اور غیر پابند نوعیت کی وجہ سے،  اور یوکرین کی صورتحال کے حوالے سے سابقہ ​​قراردادوں کے مقابلے میں اس قرارداد کے لیے ممالک کی کمزور حمایت کو مغربی ممالک کے لیے روسی املاک کو ضبط کرنے اور اس ملک سے معاوضے کے حصول کے اقدامات کو قانونی حیثیت دینے کے حوالے سے سیاسی ناکامی تصور کیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی بار، مذکورہ قرارداد جنرل اسمبلی کے ذریعے جنگی نقصانات کے اندراج کے لیے ایک غیر شفاف طریقہ کار قائم کرتی ہے، جو بہت سے مبصرین کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا اور مغربی ممالک اس کا غلط استعمال کر سکتے ہیں۔ ممالک اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے سیاسی اور سرکاری املاک کے استثنی کے اصول کو نظر انداز کر رہے ہیں اور اس طریقہ کار کے نفاذ کی بین الاقوامی ضمانت نہیں ہوگی۔

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu

لیبلز