یہ بات کاظم غریب آبادی نے ٹوئٹر پر اپنے ذاتی پیج پر کہی۔
انہوں نے بائیڈن انتظامیہ میں سیاہ فام ملازمین کی ایک بڑی تعداد کی نقل مکانی اور ملازمت سے دستبرداری کو امریکی حکومت کے منظم نسلی امتیاز کی علامت قرار دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق گذشتہ چند ماہ کے دوران وائٹ ہاؤس کے بیشتر سیاہ فام ملازمین نے مستعفی ہونے یا ملازمت سے سبکدوش ہونے کا اعلان کیا ہے۔
پولیٹکو جریدے کے مطابق رواں سال کے دوران وائٹ ہاؤس کے20سیاہ فام ملازمین نوکریاں چھوڑ چکے ہیں یا چھوڑ کر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق ان سیاہ فام ملازمین کا کہنا ہے کہ ان کی صحیح طریقے سے حمایت نہیں کی جاتی جس کی بنا پر ان کو ترقی کا چانس نہیں مل پاتا۔
وائٹ ہاؤس سے سیاہ فام ملازمین کی جانب سے ملازمت سے دستبردار ہونے کا معاملہ اتنا ہی بڑھ چکا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے ایک موجودہ اور ایک سابق عہدیدار نے اس واقعے کو بلیکزٹ کا عنوان دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس چھوڑ کر جانے کا پہلا واقعہ گزشتہ سال دسمبر میں پیش آیا تھا۔ اس واقعے سے امریکہ میں سرکاری سطح پر پائی جانے والی نسل پرستی کے تعلق سے تشویش بڑھ گئی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ 2020 کے امریکی صدارتی انتخابات میں جو بایڈن کو ووٹ دینے والوں میں بائیس فیصد سیاہ فام شہری شامل رہے ہیں۔ لہذا حالیہ مہینوں میں بائیڈن انتظامیہ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی کے باوجود ایک نیا واقعہ اب سے آئندہ امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کا تعین کر سکتا ہے۔
پولیٹکو نے منگل 31 مئی کو وائٹ ہاؤس کے9 موجودہ اور سابق اہلکاروں کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ کچھ ملازمین بہتر روزگار یا تعلیمی مواقع کیلیے اپنی ملازمتیں چھوڑ رہے ہیں، اور ان کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال میں ان کی ترقی کے لیے کوئی امید نہیں ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عملے نے اس جریدے کو بتایا کہ ہم یہاں بہت زیادہ کام کرتے ہیں لیکن ہم فیصلہ ساز نہیں کر سکتے ہیں اور ترقی اور پیش رفت کے لیے کوئی واضح امید نہیں ہے۔
ایک اور ملازم نے کہا کہ موجودہ حکومت نے ابتدا میں سیاہ فاموں کی ایک بڑی تعداد کو بغیر کسی منصوبے کے ملازمت پر رکھا اور یہ ان افراد کے نظرانداز ہونے کی ایک وجہ ہے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@