رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عوام کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والوں سے ایک ملاقات میں اپنے خطاب میں کہا کہ اس بات میں کسی کو شک نہيں کرنا چاہیے کہ شام میں جو کچھ ہوا ہے وہ امریکہ اور صیہونیوں کے مشترکہ منصوبہ کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ شام کی ایک پڑوسی حکومت نے اس سلسلے میں واضح رول ادا کیا ہے اور اس وقت بھی کر رہی ہے اور اسے سب دیکھ رہے ہيں لیکن سازش کا اصل ذمہ دار اور اصل منصوبہ امریکہ اور صیہونی حکومت میں تیار کیا گیا ہے۔
ہمارے پاس جو معلومات ہيں ان کے حساب سے کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہيں ہے۔
اس کے لئے ایسے شواہد ہیں جن کے بعد انسان کے لئے شک و شبہہ کی کوئی گنجائش باقی نہيں رہتی۔
رہبر انقلاب نے کہا: میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ خداوند عالم کی مدد سے مزاحمتی فرنٹ پہلے سے زیادہ علاقے میں پھیل جائے گا۔
رہبر انقلاب نے زور دیا کہ مزاحمت یہ ہے ، مزاحمتی فرنٹ یہ ہے: آپ مزاحمتی محاذ پر جتنا زیادہ دباؤ ڈالیں گے، یہ اتنا ہی مضبوط ہوتا جائے گا، جتنے زیادہ جرائم کریں گے، اتنا ہی زیادہ حوصلہ افزائی ہوگی۔ اس کے خلاف جتنی جنگ کریں گے وہ اتنا ہی وسیع ہوتا جائے گا اور میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ خداوند عالم کی مدد سے مزاحمتی فرنٹ پہلے سے زیادہ علاقے میں پھیل جائے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ مزاحمت کے معانی سے نابلد و بے خبر تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ مزاحمت کمزور ہو گئی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران بھی کمزور ہو جائے گا لیکن میں آپ لوگوں سے کہہ رہا ہوں کہ اللہ تعالی کی مدد سے ایران مضبوط اور طاقتور ہے اور اس سے زيادہ طاقتور بھی ہوگا۔
رہبر انقلاب نے شام میں حملہ آوروں کی صورت حال واضح کرتے ہوئے فرمایا: یقینا یہ جو حملہ آور ہيں ان کے بارے میں میں نے کہا ہے کہ ہر ایک کا اپنا الگ مقصد ہے۔ ان کے مقاصد ایک دوسرے سے الگ ہيں۔ کچھ شمالی یا جنوبی شام سے کچھ علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہيں، امریکہ علاقے میں اپنے قدم جمانا چاہتا ہے، ان کے مقاصد یہ ہیں لیکن وقت یہ ثابت کرے گا کہ ان لوگوں کا کوئی بھی مقصد پورا نہيں ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یقین ظاہر کیا کہ شام کے مقبوضہ علاقے، شام کے غیرت مند نوجوانوں کے ہاتھوں آزاد ہوں گے ، اس میں شک نہ کریں، یہ ضرور ہوگا۔ امریکہ کے قدم بھی مضبوط نہيں ہوں گے، اللہ کی مدد سے امریکہ کو بھی مزاحمتی فرنٹ کے ذریعے علاقے سے نکال باہر کیا جائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فتنہ داعش کے دور میں ایران کی شام میں موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے اس کی دو وجوہات بیان کیں جن میں سے ایک مقدس مقامات کا تحفظ اور دوسری سیکوریٹی تھی۔
انہوں نے اس سلسلے میں کہا: امیر المومنین نے فرمایا ہے کہ جو قوم اپنے گھر کے دروازے پر دشمن سے ٹکراتی ہے وہ ذلیل ہو جاتی ہے اس لئے دشمن کو گھر تک نہ پہنچنے دو۔ اس لئے ہمارے فوجی گئے، ہمارے بڑے بڑے جنرل گئے، ہمارے پیارے شہید سلیمانی اور ان کے ساتھی و دوست گئے۔ ان لوگوں نے نوجوانوں کو عراق میں بھی اور شام میں منظم کیا۔ پہلے عراق میں اور پھر شام میں انہيں منظم کیا، انہيں مسلح کیا ، ان کے نوجوانوں کو، وہ داعش کے سامنے ڈٹ گئے، انہوں نے داعش کی کمر توڑ دی اور اس کے سامنے فاتح رہے۔
رہبر انقلاب آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شام اور عراق میں ایران کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: شام و عراق میں ہماری فوجی موجودگی، فوجی مشیروں کی سطح پر رہا ہے اورلیکن اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ ہم اپنی فوج وہاں لے جائيں جو ان ملکوں کی فوجوں کا رول ادا کرے۔
ہمارے فوجی جو کر سکتےہيں، انہوں نے وہ کیا ، ان کا کام مشورے کا تھا، مشورے کا کیا مطلب ؟ مشورہ یعنی سنٹرل و اہم ہیڈکوارٹر بنانا، حکمت عملی تیار کرنا اور ضرورت پڑنے پر میدان جنگ میں جانا، لیکن سب سے اہم کام، وہاں کے نوجوانوں کو منظم کرنا تھا البتہ ہمارے نوجوان بھی، ہمارے رضاکار بھی بڑی بے تابی اور شوق و اصرار کے ساتھ وہاں گئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بشار اسد کے سقوط کے بارے میں فرمایا: مسلح افواج کے اعلی حکام ، مسلح اداروں کے سربراہوں نے مجھے خط لکھا کہ لبنان کے معاملے میں، حزب اللہ کے معاملے میں ہم سے اب برداشت نہيں ہوتا ہمیں جانے کی اجازت دیں۔ آپ لوگ اس جذبے کا اس فوج کے جذبے سے موازنہ کریں جس میں برداشت کی طاقت نہيں اور وہ بھاگ جاتی ہے۔ مزاحمت ہی نہيں کی۔ جب مزاحمت نہيں ہوگی تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا۔ مزاحمت کرنا چاہیے۔
رہبر انقلاب نے کہا: ہم ان سخت حالات میں بھی تیار تھے ، یہاں میرے پاس حکام آتے تھے اور کہتے تھے کہ شامیوں کے لئے سب کچھ تیار ہے ، ہم نے تیار کر لیا ہے اور ہم جانے کے لئے تیار ہيں لیکن فضائی راستے بند تھے، زمینی راستہ بند تھے، صیہونی حکومت اور امریکہ نے شام کی فضائی حدود بھی بند کر رکھی تھی اور زمینی راستے بھی، ممکن نہيں تھا ۔ یہ ہے معاملہ ۔ جذبہ، اگر اس ملک کے اندر جذبہ ہوتا اور ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ ہوتا تو دشمن ان کی فضائی حدود نہيں بند کر پاتا ، ان کے زمینی راستے نہيں بند کرپاتا ۔ تو اس صورت میں ان کی مدد کی جا سکتی تھی۔
انہوں نے شام کی رضاکار فورس کو شامی فوج کے کچھ عناصر کی جانب سے کمزور کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
شام میں شہید سلیمانی نے کئی ہزار مقامی نوجوانوں کو ٹریننگ دی تھی، انہيں مسلح کیا تھا، انہيں منظم کیا تھا ، انہيں تیار کیا تھا اور وہ ڈٹے رہے ، لیکن بعد میں افسوس کی بات ہے کہ خود اسی ملک کے اعلی فوجی حکام نے اعتراض شروع کر دیا، مسائل پیدا کئے، جو چیز ان کے فائدے میں تھی اسے نظر انداز کر دیا، افسوس کی بات ہے۔ اس کے بعد داعش کا فتنہ ختم ہونے کے بعد کچھ فوجی واپس ہو گئے اور کچھ وہیں رہ گئے ۔
انہوں نے شامی فوج کی کمزوری کے بارے میں کہا: تمام امور میں یہ نوجوان تھے لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا اصل رول فوج کا ہوتا ہے۔ اس ملک کی فوج کے ساتھ مل کر رضاکار فوجی جنگ کرتے ہيں جو کسی اور جگہ سے آئے ہوتے ہيں۔ اگر اس ملک کی فوج ہی کمزوری دکھائے گي تو پھر یہ رضاکار کچھ نہيں کر سکتے اور افسوس کے ساتھ شام میں یہی ہوا۔
جب مزاحمت اور ڈٹ جانے کا جذبہ کم ہو جاتا ہے تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے ۔ آج شام جن مسائل میں گرفتار ہو رہا ہے جس کے بارے میں خدا ہی جانتا ہے کہ کب تک جاری رہے گا اور کب شام کے نوجوان میدان میں آکر اس کا سلسلہ روکيں گے، وہ سب اس کمزوری کی وجہ سے ہے جو وہاں دکھائی گئی ہے۔
رہبر انقلاب نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ کئی مہینے پہلے سے ہی شام کو خبردار کر دیا گيا تھا کہا :
اس معاملے کا ایک سبق، دشمن سے غفلت ہے ، ہاں اس واقعہ میں دشمن نے بہت تیزی سے کام کیا لیکن انہيں واقعہ سے قبل ہی سمجھ جانا تھا کہ دشمن یہی کرے گا اور تیزی سے اپنا کام کرے گا۔
ہم نے ان کی مدد کی تھی۔ ہماری خفیہ ایجنسیاں کئی مہینوں سے شام کے حکام کو خبردار کر رہی تھیں، اب مجھے یہ نہيں پتہ کہ یہ سب کچھ اعلی حکام تک پہنچ رہا تھا یا نہيں بس وہی بیچ میں ہی کہیں گم ہو جا رہا تھا لیکن ہماری خفیہ ایجنسیوں نے انہيں بتایا تھا، ستمبر، اکتوبر، نومبر سے ایک کے بعد ایک رپورٹ بھیجی جا رہی تھی۔
دشمن سے غافل نہيں ہونا چاہیے ، دشمن کو کمزور نہيں سمجھنا چاہیے۔
جاری ہے...