لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری نے اخبار الجمھوریہ کو انٹرویو دیتے ہوئے صیہونی حکومت کی طرف سے جنگ بندی کے لیے پیش کردہ حل کے بارے میں کہا کہ کوئی عقلمند شخص ایسے حل کے لیے جو اسرائیلی حکومت کے مفادات اور لبنان کی قومی خودمختاری کے لیے نقصان دہ ہو، اس پر متفق ہو جائے گا؟
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ گزشتہ ستمبر میں فرانس کی جانب سے جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی تجویز کو امریکہ سمیت بڑی تعداد میں ممالک نے نہ صرف قبول کیا بلکہ جنگ کے خاتمے کے مطالبے کی شکل میں دستخط کیے، مگر اسرائیل نے اسے مسترد کر دیا۔
نبیہ بری نے تاکید کی کہ ہم اب کسی تجویز پر حامی نہیں بھریں گے کیونکہ اس وقت سب سے اہم کام جنگ بندی اور قرارداد 1701 کے ایک ایک لفظ پر عملدرآمد ہے اور اسی بات پر ہم نے امریکی ایلچی آموس ہوکسٹاین سے اتفاق کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع Yisrael Katz کے حزب اللہ کو شکست دینے کے دعوے کے بارے میں انکا کہنا تھا کہ صیہونی کس قسم کی فتح کی بات کر رہے ہیں، کیا وہ 13 ماہ کی جنگ کے بعد غزہ پٹی میں کامیابی حاصل کر سکے؟
انہوں نے مزید کہا کہ وہ (صیہونی حکومت) اپنے قیدیوں کو واپس نہیں لے جا سکے اور نہ ہی حماس کو شکست دے سکے، اس کے برعکس حماس نہ صرف بہادری سے لڑرہی ہے اور مزاحمت کررہی ہے بلکہ اب بھی صہیونی قیدی اسکی گرفت میں ہیں۔
نبیہ بری نے کہا کہ لبنان کے خلاف 45 دنوں سے جاری جنگ میں طاقت کے تمام تر استعمال کے باوجود وہ لبنانی دیہات کے کسی بھی حصے میں پیش قدمی یا قبضہ نہیں کرسکے۔
اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ صیہونی فوجی کبھی کبھی لبنان کی سرزمین میں گھس جاتے ہیں اور پھر فرار ہو جاتے ہیں، بری نے کہا کہ انہوں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ میدان میں کچھ بھی تبدیل نہیں کر سکے ہیں اور جیسا کہ یقینی ہے، میدان ہی حتمی اور فیصلہ کن نتیجہ بتاتا ہے۔