تہران/ ارنا- وزیر خارجہ ڈاکٹر سید عباس عراقچی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ایران کی سرزمین پر حملہ ہوا ہے اور فطری بات ہے کہ بروقت جواب دیا جائے گا۔

وزیر خارجہ نے تہران میں تعینات دیگر ممالک کے سفیروں اور عالمی اداروں اور تنظیموں کے مندوبین سے ملاقات کے بعد ایک انٹرویو میں کہا کہ گزشتہ ہفتوں کے دوران پیش آنے والی تبدیلیوں، بالخصوص صیہونی جارحیت کے بعد، تہران میں مقیم سفیروں اور مندوبین کو حالات سے آگاہ کرنے کے لیے ایک میٹنگ کا انعقاد ضروری تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب سے وزارت کا قلمدان سنبھالا تب سے مشترکہ نشست رکھنا چاہتے تھے لیکن علاقے کے حالات کی وجہ سے اب جاکر موقع مل سکا۔

وزیر خارجہ ڈاکٹر سید عباس عراقچی نے صیہونی حکومت کی ایران کی سرزمین پر جارحیت کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کی ایران کی سرزمین پر جو حملہ ہوا ہے اس کا جواب مناسب وقت پر یقینی طور پر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سفیروں کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں بعض ممالک نے ایک بار پھر صیہونی حکومت کی جارحیت کی مذمت کی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ایک وسیع جنگ کا امکان موجود ہے جسے روکنے کا واحد طریقہ صیہونیوں کے وحشیانہ جرائم اور حملوں کا انسداد ہے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونیوں نے ایسا کوئی جنگی جرم نہیں ہے جس کا ارتکاب نہ کیا ہو۔

سید عباس عراقچی نے صیہونیوں کے جرائم کے حجم کو تصور سے بالاتر قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور بعض یورپی ممالک نہ صرف صیہونی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں بلکہ سلامتی کونسل اور دیگر عالمی اداروں میں امن برقرار کرنے کی ہر کوشش کے سامنے رکاوٹیں بھی کھڑی کر رہے ہیں۔

انہوں نے یورپی ممالک کی جانب سے ایران پر حملے کی عدم مذمت کے بارے میں کہا کہ مغربی ممالک کی عادت ہے کہ صرف ان معاملات میں بین الاقوامی قوانین اور حقوق کی بات کرتے ہیں جس سے ان کے مفادات جڑے ہوئے ہوں۔ وزیر خارجہ نے مغربی ممالک کے رویے کو ان دوہرے معیار کا نتیجہ قرار دیا اور زور دیکر کہا کہ ہمیں مغربی ممالک یا کسی بھی دوسرے ملک کے موقف سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

وزیر خارجہ نے زور دیکر کہا کہ ہمارا موقف بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور کے تحت واضح ہے۔

انہوں نے ایران پر حملے کے جواب میں ایران کی کارروائی کو یقینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک دفاعی اقدام ہوگا لیکن یہ اقدام کب ہوگا، اس کا تعین تہران کرے گا۔

سید عباس عراقچی نے کہا کہ ماضی میں بھی ثابت کرچکے ہیں کہ ہمارے قدم مکمل ذہانت اور سوجھ بوجھ کے ساتھ ہوں گے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو جزباتی اور غیرسنجیدہ اقدامات پر مجبور نہیں کیا جاسکے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایران میں فیصلے مکمل ذہانت پر مبنی ہوتے ہیں اور ہمارا جواب بروقت اور مناسب انداز میں ہوگا۔

انہوں نے اس مسئلے کے جواب میں کہ صیہونی حکومت نے ایران پر جارحیت کے لیے بعض ممالک کی فضائی حدود کا استعمال کیا کہا کہ ہم نے ان ممالک سے اس بارے میں پہلے بھی گفتگو کی تھی اور ہمیں اطمینان دلایا گیا تھا کہ ان کی فضائی حدود کو ایران کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیا جائے گا لیکن جب ان کے حدود کی خلاف ورزی ہوئی تو ان ممالک نے اقوام متحدہ میں شکایت بھی درج کرا دی۔

سید عباس عراقچی نے کہا کہ ہم ان ممالک کی مجبوریوں کو سمجھتے ہیں لیکن قانونی لحاظ سے ان کی ذمہ داری اپنی جگہ پر برقرار ہے۔

وزیر خارجہ نے امریکہ کے کردار کے بارے میں کہا کہ امریکہ نے سب سے زیادہ صیہونی حکومت کے حملے میں ان کا ساتھ دیا ہے۔ فضائی راستہ امریکیوں نے تل ابیب کو دیا اور اسی لیے امریکہ اور یورپی ممالک کو غاصب حکومت کے جرائم میں برابر کا شریک سمجھتے ہیں۔