حسین جابری انصاری نے ہفتہ کو ٹی وی پر ایک انٹرویو فلسطین، لبنان اور خطے کی تازہ ترین پیش رفت کا تجزیہ پیش کیا۔
ارنا کے سربراہ نے 7 اکتوبر سے قبل صیہونی حکومت کی کارکردگی اور الاقصی طوفان آپریشن کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا: 7 اکتوبر کے موقع پر ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جس کا خلاصہ گزشتہ سال نیتن یاہو کی تقریر میں کیا گیا تھا۔ نیتن یاہو کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ مسئلہ فلسطین ختم ہو چکا ہے اور اسرائیل عرب دنیا کے 98 فیصد حصے کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔
انہوں نے مزيد کہا: حقیقت میں بھی اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کا آغاز سعودی عرب سے ہوا تھا اور یہ سلسلہ دوسرے عرب ممالک پھیلتا جا رہا تھا لیکن 7 اکتوبر کو اس عمل کو ایک جھٹکا لگا اور وسیع پیمانے پر اسرائیل کی بدنامی سے موجودہ نسل ہی نہيں بلکہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی ایسا ماحول بن گیا جس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا امکان ختم ہو گیا۔
وزارت خارجہ کے سابق ترجمان نے کہا: "مسئلہ فلسطین ایک مردہ مسئلے کی شکل کے بجائےاب خطے کا سب سے اہم مسئلہ بن گیا اور اس کے لئے ہمیں الاقصی طوفان آپریشن کے منصوبہ سازوں کی تعریف کرنی چاہیے جنہوں نے مسئلہ فلسطین کو ایک مرکزی مسئلہ بنا دیا جبکہ 7 اکتوبر سے پہلے فلسطینی کاز کو ایک فراموش شدہ مسئلہ سمجھا جانے لگا تھا۔
جابری انصاری نے بیان کیا: 7 اکتوبر کے بعد کے حالات نے دو دہائیوں تک سائیڈ لائن رہنے کے بعد، مسئلہ فلسطین کو ایک مرکزی مسئلے میں تبدیل کر دیا، اور اسے الاقصی طوفان کی سب سے اہم کامیابی سمجھا جاتا ہے۔