اتوار کے روز محسن رضائی نے صوبہ لرستان میں ایک پروگرام میں تقریر کے دوران کہا کہ اسلامی انقلاب کے آغاز سے مسلط کردہ جنگ کے آغاز تک ایک ہزار سے زائد سرحدی چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ اس کے نتیجے میں 8 سالہ جنگ شروع ہو گئی۔
انہوں نے واضح کیا کہ دشمن میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے لوگوں کو انقلاب سے الگ کرنے اور انقلاب کے نظریات کو بھلا دینے کی کوشش میں ہے اس لئے اس سلسلے میں معاشرے کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیل کے حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ہم جنگ شروع نہیں کرنا چاہتے لیکن جارحیت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے تہران میں ہمارے مہمان کو شہید کر دیا گيا تو اس مذموم کارروائی کا جواب دیا جائے گا، ہم وقت کا انتظار کر رہے ہيں اور جواب ضرور دیں گے۔
تشخیص مصلحت نظام کونسل کے رکن نے کہا: "اب یہ جنگ لبنان تک پھیل گئی ہے اور وہ ایران کو جنگ میں لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے تاکہ جنگ میں عدم شرکت کی ایران کی پالیسی کو متاثر کیا جا سکے۔"
محسن رضائی نے مزید کہا: آج کی صورتحال بہت اہم ہے، دنیا کو یہ جاننا چاہیے کہ ہم جنگ نہیں چاہتے اور ہم جنگ کرنے کے لئے آگے نہيں بڑھیں گے لیکن وہ مہم جوئی کی کوشش میں ہیں جس کا لبنان کی حزب اللہ نے جواب بھی دیا ہے اور آنے والے دنوں میں جواب دینے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں دشمنوں نے ایران کی اقتصادی ناکہ بندی کی لیکن انہيں عوام کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے انہیں شکست ہوئی، لہٰذا اب وہ فوجی راہ سے ایران کو پسپائی پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: "اسلامی دنیا کے اندر باہمی اتحاد ضروری ہے جس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اس لئے ہمیں ایک جہادی دفاع کے لئے رہبر انقلاب کے حکم کی تعمیل کے لئے تیار رہنا چاہیے۔