ارنا کی رپورٹ کے مطابق، پاکستانی سفارت کار اور اسٹریٹجک امور کی ماہر ملیحہ لودھی نے اپنے ایک مضمون میں تہران میں حماس کے رہنما شہید اسماعیل ھنیہ کے قتل کی اسرائیلی دہشت گردانہ کارروائی کے بعد مشرق وسطیٰ میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں کہا کہ کہ گزشتہ ماہ اسرائیل کے وزیر اعظم کے دورہ واشنگٹن کے دوران تمام امریکی سیاسی قوتوں نے انکی حوصلہ افزائی کی جو اس بات کا باعث بنی کہ بنیامین نیتن یاہو خطے میں مجرمانہ اقدامات کرنے میں مزید ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
لودھی 2018 کے وسط میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے کے عہدے سے ریٹائر ہوئيں۔ وہ واشنگٹن میں پاکستان کی 17ویں سفیر کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں اور اس سے قبل وہ لندن میں 5 سال تک پاکستان کی سفیر رہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ تہران میں ھنیہ اور لبنان میں حزب اللہ کی سرکردہ شخصیات کے قتل سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں جنگ بندی کو فروغ دینے میں دیانتدار نہیں ہے اور جنگ بندی کی حمایت میں امریکہ کی بیان بازی کا بھی کوئی فائدہ نہیں، بلکہ یہ سب اسرائیلی حکومت کے لیے جنگ کو بڑھاوا دینے کا گرین سگنل ہے۔
انہوں نے بیرونی (اسرائیلی) دہشت گردی کے خلاف اسلامی ممالک کے غیر مناسب ردعمل کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے حالیہ غیر معمولی اجلاس کا حتمی بیان بھی (جو ایران کی درخواست پر جدہ میں منعقد ہوا تھا) مایوس کن تھا جو مسلم دنیا سے وابستہ حقیقی توقعات پر پورا نہیں اترا۔
انہوں نے کہا کہ "فی الحال، ایران کی توجہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کے خلاف علاقائی اور عالمی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے سفارتی کوششوں پر مرکوز ہے۔"
واشنگٹن کے کہنے پر بعض عرب ممالک کی جانب سے تہران کو فوجی جوابی کارروائی سے باز رکھنے کی کوششیں بے ثمر ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کا جواب دیے بغیر نہیں چھوڑے گا۔
لودھی نے کہا کہ تہران اسرائیل کو مناسب جواب دینے پر غور کر رہا ہے۔ ایران جانتا ہے کہ نیتن یاہو جنگ میں مزید اضافہ اور توسیع کا خواہاں ہے ۔ ایران پر حملہ کرنے میں اسرائیل کا ساتھ دینے کے لیے واشنگٹن کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دوسری جانب حالیہ قتل و غارت گری سے اسرائیل نے اپنے ناکام منصوبوں کو دہرایا یعنی حماس کو تباہ کر کے مزاحمتی قوت کو کمزور کرنے کی کوشش کی جو کبھی کامیاب نہیں ہو گی۔
انہوں نے تاکید کی کہ اگر اسرائیلی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس کی فوجی جارحیت اور دہشت گردی کی حکمت عملی فلسطینی مزاحمت کو کمزور اور حماس کو تباہ کر دے گی تو یہ سراسر غلط ہے۔ تاریخ نے بار بار دکھایا ہے کہ کسی بھی جبر اور وحشیانہ طاقت کا استعمال تسلط اور قبضے کے تحت لوگوں کی مزاحمت کے جذبے کو کم نہیں کرسکتا اور آزادی کی تحریکوں کو ان کے قائدین کو قتل کرکے تباہ نہیں کیا جاسکتا۔