ایران کے امور حج کے عہدیداروں، منتظمین اور حجاج کے ایک گروپ نے آج بروز پیر 6 مئی کو رہبر انقلاب اسلامی ایران سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے دنیا کی موجودہ صورتحال اور امریکہ کی حمایت میں جاری صیہونی جرائم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سال کا حج برأت کا حج ہے، آج غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک بہت بڑا اشارہ ہے جو تاریخ میں تاابد رہے گا اور راستہ دکھائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اگر امریکہ کی مدد نہ ہوتی تو کیا صیہونی حکومت ان وحشیانہ جرائم کو انجام دینے کی طاقت اور جرات رکھتی؟ قاتل اور قتل کے محرکین، انکے حامیوں اور مددگاروں کے ساتھ حسن سلوک ممکن نہیں۔
انہوں نے فرمایا کہ اس سال حجاج کرام کو "برأت" کی قرآنی منطق تمام عالم اسلام تک پہنچانا چاہیے۔
رہبر انقلاب نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ اس سال ہمارا حج جناب ابراہیم (ع) کی طرف سے دی گئی تعلیمات کے مطابق "حج برأت" ہے۔ بلاشبہ انقلاب کے آغاز سے ہی حج میں برأت موجود ہے اور رہے گی مگر اس سال کا حج خصوصی طور پر "برأت" سے موسوم ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ جو واقعات غزہ میں رونما ہو رہے ہیں اور یہ ہولناک حادثہ، ایک خون آشام چہرے کا انکشاف، یہ سب مغربی تہذیب کی دین ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جو وقتی نہیں بلکہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
انہوں نے فرمایا کہ آج غزہ اور فلسطین میں صیہونی پاگل کتوں اور خون آشام عناصر کا ظلم ایک طرف اور غزہ کے مسلمانوں کی مزاحمت اور استقامت دوسری طرف، یہ ایک بہت بڑی نشانی ہے اور یہ ایک اشارہ ہے جو نہ صرف تاریخ میں باقی رہے گا بلکہ انسانیت کے مستقبل کے لیے مشعل راہ ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے واضح کیا کہ حضرت ابراہیم (ع) جو رحیم، رؤف اور ودود ہیں قوم لوط کی شفاعت کرتے ہیں، نافرمانوں کے لیے استغفار کرتے ہیں، اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ کافر جو جنگ نہیں کرتے انکے ساتھ بھی بھلائی کی جائے، وہی ابراہیم ثابت قدمی سے اظہار برأت کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ «إِنَّا بُرَآءُ مِنکُمْ» ہم تم سے برأت کرتے ہیں «وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ»' اور ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے، کھلی دشمنی ہے، ہم تمہارے کھلے دشمن ہیں اور تم سے دشمنی رکھتے ہیں. یہ کون ہیں؟ یہ وہی ہیں جو لڑتے ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے برأت کے اصول کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر امریکہ کی مدد نہ ہوتی تو کیا صیہونی حکومت کے پاس اتنی طاقت اور ہمت تھی کہ وہ اس محدود علاقے میں مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک کرنے کی جرات کر پاتی؟ آپ اس دشمن کے ساتھ جو قتل کا ذمہ دار ہے یا وہ جو قتل کے محرکین، انکا حامی اور مددگار ہے، حسن سلوک نہیں کر سکتے۔
انہوں نے فرمایا کہ قرآن کا متن، قرآن کی آیات یہ ہیں «أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَی الظَّالِمِینَ» ظالمین پر اللہ کی لعنت ہے۔ اگر کوئی ان سے دوستی کرے تو وہ ظالم ہے، اس سال برأت پہلے سے زیادہ واضح ہے لہذا اس سال کا حج "برآت کا حج" ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے حج کے سیاسی پہلو پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ حج کا ایک اجتماع تمام مذاہب، مختلف اسلامی فرقوں کے پیروکاروں پر مشتمل تمام قومیتوں کے یکساں سیاسی اور سماجی پہلو کا واضح مظہر ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ اختلافات اور تفرقہ انگیز مسائل پر قابو پانے کی ضرورت حج سے مخصوص نہیں ہے اور قرآن مجید کی بہت سی آیات مسلمانوں کے اتحاد اور باہمی ہمدردی پر زور دیتی ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے مسئلہ فلسطین میں دوسروں کا انتظار نہیں کیا اور نہ ہی کرے گا، لیکن اگر اسلامی ممالک اور حکومتیں مدد اور ساتھ دیں تو فلسطینی قوم کی قابل رحم حالت تبدیل کی جاسکتی ہے۔