پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا نے جمعرات کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی کابینہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان ایران گيس پائپ لائن پروجیکٹ کے تحت 80 کیلو میٹر پائپ لائن بچھائی جائے گی اور یہ کام ہماری سرحدوں کے اندر ہوگا۔
انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کے اندر پائپ لائن کا کام ایران کے ساتھ مشترکہ پروجیکٹ کی ہماری طرف سے پابندی کی علامت ہے اس لئے اسلام آباد کا یہ ماننا ہے کہ یہ حصہ ہمارے ملک کے اندر ہوگا اور اس کے لئے ہمیں کسی تیسرے ملک سے مشورے کی ضرورت نہيں ہے۔
اس سے قبل پاکستان کی وزارت پیٹرولیم نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل ملک کی توانائی کی ضرورت کا قابل اطمینان حل ہے۔ بیان مزید کہا گیا کہ پاکستانی کابینہ کی انرجی کمیٹی کا گوادر پورٹ سے ایران کے ساتھ مشترکہ سرحد تک 81 کلومیٹر طویل پائپ لائن پر ایران کے ساتھ اتفاق ہو گیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں تمام متعلقہ محکمے اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے مثبت نقطہ نظر رکھتے ہیں تاکہ پاکستانی عوام تک گیس کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے اور اس منصوبے کی تکمیل کے نتیجے میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
پاکستان کی وزارت پیٹرولیم نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کے ساتھ گیس کے مشترکہ منصوبے سے نہ صرف پاکستان کی توانائی کی ضروریات قابل اطمینان ذریعے سے پوری ہونگی بلکہ مقامی صنعت کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا جس کی ضرورت گیس کی مسلسل فراہمی ہے۔ نیز، اس سے بلوچستان میں اقتصادی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی اور پاکستان کی اقتصادی ترقی میں مدد ملے گی۔
"برطانیہ غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے اپنے عوام کی آواز پر کان دھرے"
ممتاز زہرا نے اسی طرح برطانیہ کی جانب سے پاکستان کی نئي حکومت کو شہریوں کے حقوق پر توجہ اور ملک میں بنیادی اصلاحات کی سفارش پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ سلامتی کونسل کا ایک مستقل رکن ہے اور اگر وہ دوسرے ممالک کے داخلی امور کے سلسلے میں احکامات صادر کرنے کو مناسب سمجھتا ہے تو پھر ہے کہ وہ غزہ کے بارے میں اپنے ملک کے عوام کی آواز سنے جو غزہ میں جنگ بندی کے خواہاں ہیں۔