وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیرعبداللہیان نے شامی اور غیرملکی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شام کے صدر بشار اسد اور ان کے شامی ہم منصب فیصل مقداد سے ملاقات کے دوران علاقے کے اہم مسائل پر بات چیت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اطمینان ہے کہ مستقبل قریب میں دونوں ممالک ساتھ مل کر قابل ذکر معاشی، سیاحتی اور صنعتی ترقی کریں گے۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ انہوں نے صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی کی جانب سے ایران کے رسمی دورے کی دعوت صدر بشار اسد کو پیش کر دی ہے۔
ڈاکٹر حسین امیرعبداللہیان نے گزشتہ دنوں شام پر امریکہ کی جارحیت میں متعدد شامی شہریوں کی شہادت اور زخمی ہونے کی تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ تہران شام کے بعض علاقوں میں غیرعلاقائی طاقتوں کی غیرقانونی موجودگی اور ان کی جارحیتوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ جس طرح سے ہمارے فوجی مشیروں نے گزشتہ برسوں کے دوران مستحکم طریقے سے دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور شام کے ساتھ کھڑے رہے، اسی طرح ہم بھی شام کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔
انہوں نے صیہونی فضائیہ کے حملے میں شہید ہونے والے اسلامی جمہوریہ ایران کے فوجی مشیر شہید سید رضی موسوی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے صیہونیوں کو خبردار کیا کہ پورے علاقے میں غاصب اسرائیلیوں کی ہر جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا جس طرح سے اب تک دیا جا چکا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ آج نتن یاہو غزہ کے دلدل میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور غزہ صیہونیوں کے قبرستان میں تبدیل ہوگیا ہے۔
وزیر خارجہ نے زور دیکر کہا کہ غزہ اور غرب اردن کے مسائل کا حل سیاسی طریقہ کار اور جنگ کے خاتمے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران غزہ اور غرب اردن کے عوام کے جبری کوچ کو روکنے کے لئے ہر ممکنہ کوشش جاری رکھے گا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ دورہ بیروت کے موقع پر استقامتی محاذ کے اعلی عہدے داروں سے ملاقات کی اور اس دوران جنگ جاری رہنے کی صورت میں ان کی تیاری اور صیہونیوں کے حملوں کے مقابلے میں ان کی استقامت کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام تک امداد پہنچانے کے لئے شام اور دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ مشاورت اور رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔
علاقے میں پائیدار امن کا واحد طریقہ
ڈاکٹر حسین امیرعبداللہیان نے کہا کہ دمشق سے با آواز بلند اعلان کرتا ہوں کہ علاقے میں مستحکم قیام امن کی بحالی کا واحد طریقہ، نسل کشی کا خاتمہ اور غزہ میں امریکی اور اسرائیلی مشترکہ مظالم کی روک تھام کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس نے گزشتہ دنوں جنگ کے خاتمے اور سیاسی راہ حل کے سلسلے میں کئی شرطیں پیش کرکے ثابت کردیا کہ صیہونی حکومت جنگ کے ذریعے اپنا کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کرسکتی۔
وزیر خارجہ ڈاکٹر حسین امیرعبداللہیان نے کہا کہ جنگ کی شدت میں اضافہ کرنے والی فریق صیہونی حکومت ہی تھی۔ انہوں نے امریکہ کے متضاد رویے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ کو روکنے کی ضرورت کے دعوے اور ساتھ ساتھ تل ابیب کو ہتھیاروں کی ترسیل ناقابل قبول ہے اور یہ رویہ جاری نہیں رہ سکتا۔
انہوں نے کہا کہ جنگ اسی وقت ختم ہوگی جب امریکیوں کے بیان اور عملی اقدام کے درمیان تضاد ختم ہوجائے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ امریکی حمایت کے بغیر نتن یاہو ایک گھنٹے بھی جنگ جاری رکھنے پر قادر نہیں ہیں۔
غزہ کے سلسلے میں ایران اور شام کے موقف میں ذرہ برابر فرق پایا نہیں جاتا
اس موقع پر شام کے وزیر خارجہ نے بھی نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ ایران کے اسلامی انقلاب کے جاری رہنے کے بارے میں شکوک و شبہات ظاہر کیا کرتے تھے لیکن آج 45 سال بعد ثابت ہوگیا کہ ایرانی عوام نے اس انقلاب کو دل و جاں سے قبول کیا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی، صدر جمہوریہ اور ایرانی عوام کو اسلامی انقلاب کی پینتالیسویں سالگرہ کی مبارکباد پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ دوست ملک ایران کے وفد نے صدر بشار اسد کے ساتھ علاقائی حالات بالخصوص فلسطینی عوام کی شاندار استقامت کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔
شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد نے کہا کہ ہمیں اطمینان ہے کہ غزہ کی حمایت کے سلسلے میں تہران اور دمشق کے مابین مکمل ہماہنگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی مظالم نے عالمی رائے عامہ پر ثابت کردیا کہ یہ حکومت کس حد تک ظالم ہے اور کیوں اسلامی ممالک اور حریت پسند شخصیات اس حکومت کی مخالفت کرتی آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حقیقت کا پردہ فاش ہونے کا سہرا فلسطینی استقامت کے سر جاتا ہے۔
فیصل مقداد نے کہا کہ ہمیشہ اور بارہا کہہ چکا ہوں کہ شام مین بھی غیرقانونی قبضہ ختم ہوکر رہے گا چاہے وہ امریکی ہوں یا ترک۔ انہوں نے شام میں امریکیوں کی موجودگی کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کی کسی بھی بات پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ترکیہ اور امریکہ شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
ارنا کے رپورٹر کے اس سوال کا کہ صیہونی حکومت کی جانب سے شام کے حدود کی مسلسل خلاف ورزی پر دمشق کا کیا ردعمل ہوگا جواب دیتے ہوئے فیصل مقداد نے کہا کہ شام صیہونی حکومت کی تشکیل سے لیکر اب تک یعنی سن 1948 سے لیکر آج تک اسرائیل کا مقابلہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام نے مختلف جنگوں کے دوران اسرائیل کا مقابلہ کیا ہے اور آج بھی نئی جنگوں کے لئے تیار ہے۔ لیکن یہ جنگیں کہاں، کب اور کس طرح ہوں، اس کا فیصلہ شام کرے گا۔