پاکستان کے صدر، اسپیکر اور وزارت خارجہ کی ترجمان نے الگ الگ بیانات میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جس کے تحت عالمی عدالت انصاف اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اسرائيل کے خلاف نسل کشی کے جنوبی افریقہ کے مقدمے کی سماعت کی وہ اہل ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس عبوری فیصلے پر عمل در آمد کے لئے غزہ کے عوام کے مصائب کو ختم کرنے کی غرض سے ایک فوری اور غیر مشروط جنگ بندی ضروری ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائيل نے 7 اکتوبر سن 2023 سے فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت کا آغاز کیا ہے اس لئے اسلام آباد عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو بجا اور فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی اور اسرائیل کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی سمت میں ایک اہم موڑ سمجھتا ہے۔
پاکستان کی حکومت نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے پر پوری طرح سے عمل در آمد کیا جائے۔
پاکستان کے صدر عارف علوی نے بھی ایک بیان میں عالمی عدالت انصاف میں مظلوم فلسطینیوں کی طرف سے جنوبی افریقہ کے مقدمے کی مکمل حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ غاصب اسرائيل ایک بار پھر رسوا ہو گيا اور عالمی عدالت انصاف نے غزہ کے عوام کی صیہونیوں کے ہاتھوں نسل کشی کی مذمت کی ہے ۔
پاکستان کے اسپیکر راجا پرویز اشرف نے بھی اسرائيل کے خلاف فلسطینیوں کی قانونی جد و جہد کی پاکستان کی حکومت، عوام اور پارلینمٹ کی جانب سے سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں اسرائيل کے جرائم کا سد باب اور فلسطینیوں کی جان بچانا، عالمی برادری کے لئے ایک اہم امتحان ہے۔
واضح رہے ہیگ کی بین الاقوامی عدالت انصاف نے جمعہ کو جنوبی افریقہ کی جانب سے صیہونی حکومت کے خلاف دائر مقدمے کے سلسلے میں اپنا شروعاتی فیصلہ سنا دیا ہے۔
عدالت نے کیس کو خارج کرنے کی اسرائيل کی درخواست کو خارج کر دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ اسرائيل نے جنگي جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ اسرائیل کو چاہیے کہ وہ محاصرہ ختم کرے اور لوگوں تک ضروری اشیاء کی ترسیل میں تعاون کرے ۔
عالمی عدالت انصاف کی سربراہ جوآن داناہیو نے عدالت کا فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا: یہ عدالت غزہ میں موجودہ المیہ سے با خبر ہے اور وہاں مسلسل قتل کی مذمت کرتی ہے۔
انہوں نے کہا: جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کی گئي درخواست کی وجہ سے اس عدالت کے اختیارات کا دائرہ محدود ہے ۔ اگر حالات، عدالت کے مشنور کی شق نمبر 7 اور 9 سے مطابقت رکھيں گے تو یہ عدالت وقتی تدابیر اختیار کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا: ہم اسرائيل کے خلاف قتل عام کے مقدمے کو مسترد نہيں کرتے اور ہمیں ہنگامی احکامات صادر کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ معلومات سے پتہ چلتا ہےکہ 25 ہزار سے زائد فلسطینی مارے گئے اور اور جنگ کے دوران 20 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ فلسطینی قوم، انسداد قتل عام کے معاہدے کے تحت ہے۔ شروعاتی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ غزہ، مایوسی اور موت کی جگہ بن چکا ہے۔