تہران-ارنا-  حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے کہا: غزہ، اسلامی امت کے خون، اسلحے، میدان اور مقصد کے اتحاد کی علامت ہے اور اس نے ہمارے دشمنوں کی نیند اڑا دی ہے۔ جسے بھی یہ لگتا ہے کہ اس امت کے پاس استقامت کے علاوہ کوئي اور بھی راستہ ہے تو وہ بہت بہت بہت بڑی غلط فہمی اور وہم میں ہے۔

تہران میں منعقد ہونے والے سمینار " غزہ استقامت کی علامت " میں حزب اللہ لبنان کے نمائندے سید عبد اللہ صفی الدین نے سید حسن نصر اللہ کا پیغام پڑھ کر سنایا۔

پیغام میں کہا گیا ہے: غزہ  آج ایک علامت ہے کیونکہ غزہ میں ایک شرافت مندانہ، پیش قدم اور سودے بازی سے دور استقامت جاری ہے، اگر غزہ استقامت کا مظاہرہ نہيں کرتا تو اقتدار و طاقت کی علامت نہيں بنتا، استقامت عزت و کرامت کا راز اور کامیابی کی چابی ہے۔

حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے اپنے پیغام میں مزید کہا ہے: غزہ میں آج تک ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں اور افسروں کی تعداد سن 1967 کی 6 روزہ جنگ میں ان کی ہلاکتوں سے کئي گنا زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا: اسرائیلی فوج نے 6 روزہ جنگ میں مسلمانوں کی 69 ہزار مربع کیلو میٹر سے زائد سر زمین پر قبضہ کر لیا تھا لیکن آج غزہ پٹی کے ایک حصے میں ہار میں پھنسی ہاتھ پیر مار رہی ہے اور جتنے بھی مقصد کا اعلان کیا تھا یا جو نیا قبضہ کرنا چاہتی تھی ان سب میں ناکام رہی ہے اور جیتنے کا اس میں دم ہی نہيں اور ہمیشہ اپنی پسپائی کو دوسرے مرحلے میں داخلے کا نام دیتی ہے۔ اس لئے اس سمینار کا یہ نعرہ کہ " غزہ استقامت کی علامت ہے " بالکل صحیح نعرہ ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا: دشمن کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے فلسطینی کاز اور اپنی سرزمینوں کے بارے میں فلسطینیوں کے حق کی بازیابی خطرے میں پڑ گئي تھی  اور خطرہ ایک سازش کی شکل میں گہرا ہو رہا تھا جو مستقبل میں فلسطینیوں کو استقامت اور اپنے حق سے محروم کئے جانے پر منتج ہو سکتا تھا  لیکن الاقصی طوفان نے تمام حساب کتاب اور اندازوں، منصوبوں اور خطروں کو الٹ پلٹ دیا اور وہ بساط ہی پلٹ دی جس کے لئے دشمن نے برسوں تیاری کی تھی۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا: الاقصی طوفان آپریشن نے شکست کا ٹھپہ صیہونیوں کے ضمیر پر اس طرح سے لگا دیا ہے جو کبھی صاف نہيں ہوگا۔ ان کے نا قابل شکست ہونے اور ان کی تہذیب کے مثالیہ ہونے کا خواب چکناچور ہو گيا اور جس مقصد و مشن کا گلا گھونٹے کے لئے انہوں نے برسوں تک تیاری کی تھی وہ پوری دنیا کی زبان پر آ گيا اور آج صیہونی جو اتنے بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں اور بے گناہ شہریوں کا قتل کر رہے ہيں وہ در اصل پے در پے اپنی شکستوں کو چھپانے کی کوشش ہے۔

سید حسن نصر اللہ کے پیغام میں مزید کہا گيا ہے: مغرب اور ان میں سر فہرست امریکہ، برطانیہ نے ہمارے علاقے پر حملے کے دوران اسلامی امت کو پارہ پارہ کر دیا جس میں ان کے زرخریدوں نے پوری مدد کی ۔

انہوں نے کہا: امریکہ اور مغرب  کی مکمل حمایت کے ساتھ عشروں تک اسلامی سماج کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور فلسطینی کاز کو ختم کرنے کی کوششوں کے بعد آج لبنان، شام، عراق، ایران و یمن، دشمن کی توقع سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ غزہ کی مدد کے لئے آگے بڑھے اور مزاحمتی تنظيمیں، اس غاصب حکومت کو 100 سے زیادہ دنوں تک گولہ باری و آگ کے محاصرے میں رکھے ہیں جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

بیان میں کہا گيا ہے: غزہ کے مددگار شہیدوں کا خون لبنان میں، غزہ کے مددگار شہیدوں کا خون شام میں، غزہ کے مددگار شہیدوں کا خون عراق میں، غزہ کے مددگار شہیدوں کا خون یمن میں اور غزہ کے مددگار شہیدوں کا خون ایران میں کہ جس کی تازہ مثال جنرل سید رضی موسوی کا خون تھا، ان تمام شہیدوں کے خون، غزہ و غرب اردن کے شہیدوں کے خون کے ساتھ مل گئے اور ایک دوسرے کو مکمل کر دیا اور یہ وہی اسلامی امت کے خون، اسلحے، میدان اور مقصد کے اتحاد کی علامت  ہے کہ جس نے ہمارے دشمنوں کی نیند اڑا دی ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا: اسرائيل کو سن 1982 میں سفارت کاری کے ذریعے نہیں، استقامت کے ذریعے لبنان سے بھگایا گیا تھا اور اسرائیل غزہ و فلسطین سے بھی سفارت کاری کے ذریعے نہيں بلکہ استقامت کے ذریعے بھگایا جائے گا۔ ایک امت کے طور پر ہمارے پاس مزاحمت کے علاوہ کوئي راستہ نہيں ہے، ہمارے پاس مزاحمت کے علاوہ کچھ نہيں ہے اور ہمارے پاس مزاحمت کے علاوہ پر امید ہونے کے لئے کوئي اور چیز نہيں ہے ۔

انہوں نے کہا: بین الاقوامی اداروں سے امید رکھنا یا اس سے امید رکھنا جو نام نہاد عالمی برداری کہی جاتی ہے جیسا کہ ہم نے بارہا دیکھا ہے، ایک کبھی نہ پوری ہونے والی امید ہے اور اس کے نتیجے میں ناکامی و نقصان و پشیمانی کے علاوہ کچھ نہيں ملتا کیونکہ یہ تمام ادارے امریکی حکام کے اشاروں پر چلتے ہيں۔

انہوں نے لکھا ہے : میں اس سمینار کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران کے ذمہ داروں اور ایرانی قوم کا پیش قدمی کے ساتھ حمایت کرنے اور اسی طرح امام و رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای دام ظلہ کے سچے اور حکیمانہ موقف پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔