تہران۔ ارنا ایرانی حکومت کے ترجمان نے عومی احتجاج کے ماحول فراہم کرنے پر ایرانی صدر کی تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی حکومت قانونی اجتماعات منعقد کرنے سے متفق ہے اور ایرانی وزیر داخلہ پر فرض ہے کہ احتجاجی اجتماعات کے انعقاد کے لیے تجاویز پیش کریں۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، "علی بہادری جہرمی" نے منگل کے روز کو ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بات کی یاد دہانی کرائی کہ تمام یونیورسٹیوں میں آزاد مکالمہ ہائوس کا قیام ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کی ذمہ داری ہے تاکہ اشرافیہ میں تنقیدی مباحث کو جگہ فراہم کی جاسکے اور اس سلسلے میں پہلا مرکز تہران یونیورسٹی میں 90 پروفیسرز کی شرکت سے کھولا گیا تھا۔

ایرانی حکومت کے ترجمان نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ ایرانی حکومت کے ایجنڈے میں ہے اور وہ اس حوالے سے کسی بھی تعاون کا خیر مقدم کرتی ہے اور ملکی معاملات میں خلل نہ پڑنے کے لیے وزیر داخلہ اجتماعات کا انتظام کرنے کیلئے تجاویز دینے کے پابند ہیں۔

بہادری جہرمی نے کہا کہ حکومت قانونی اجتماعات کے انعقاد سے متفق ہے اور قانون میں سیاسی جماعتوں اور گروپوں کی سرگرمیوں سے متعلق قواعد و ضوابط کی بھی وضاحت کی گئی ہے اور صدر نے میکنزم کو اپ ڈیٹ کرنے کی تجویز پیش کی ہے اور اسے ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کو تفویض کیا ہے۔

انہوں نے معاند نیوز نیٹ ورکس کی جانب سے خبروں کی اشاعت اور ان سے نمٹنے کے لیے ایرانی حکومت کی جانب سے کیے گئے عملی اقدام کے بارے کہا کہ بعض ذرائع ابلاغ مقامی لوگوں کو درست خبریں فراہم کرنے کے بجائے دہشت گردی کی کارروائیوں اور بچوں سے زیادتی کی تعلیم دینے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔

بہادری جہرمی نے کہا کہ ان میڈیا کو ان ممالک کی حمایت حاصل ہے جو اپنے تنازعات کی خبریں دوبارہ شائع کرنے کی جرأت نہیں کرتے، اور ان میڈیا کو قانونی حکام میں ان کے تباہ کن اقدامات کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے، اور حکومت یقینی طور پر لوگوں کے حقوق کا دفاع کرے گی۔

انہوں نے ایران کے اندورنی معاملات میں بعض مغربی ممالک کی مداخلت و نیز ملک کیخلاف لگائی گئی پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مختلف میدانوں میں مغربی ممالک کیجانب سے دوہریے رویے اپنانے کا مشاہدہ کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ وہ خواتین کے تحفظ کے نام پر افراتفری اور تشدد کے ساتھ خواتین کا دفاع کرتے ہیں لیکن یورپ کے دل میں ایرانی سفیر کی خاتون پر ٹھنڈے ہتھیاروں سے حملہ کیا جاتا ہے اور وہ ایرانیوں حتی کہ سفیر کو تحفظ فراہم کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں لیکن وہ سیکیورٹی آرڈر دینے کا دعوی کرتے ہیں۔

ایرانی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ  ان دوہرے معیارات کا حل کرنا ہوگا؛ یہ ممالک جو آرڈر دیتے ہیں انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ امریکہ معاہدے سے دستبردار ہو گیا اور ایرانی حکومت کو اپنے عوام کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دینے اور پابندیاں ہٹانے میں زیادہ سنجیدہ ہونے کا باعث بنا۔

انہوں نے کہا کہ "مہسا امینی "جو دوائی استعمال کرتی تھیں، اس کے خام مال کی تیاری کو امریکی پابندیوں کی وجہ سے کئی بار درآمد کرنے کے مسائل کا سامنا پڑا؛ پھر یہاں حمایت کا دعوی کرنا  بے معنی ہے؛ کیونکہ وہ ادویات کی فراہمی کے میدان میں انسانی حقوق کے خلاف اقدامات کے ساتھ ادویات کے داخلے کو روکتے ہیں، لیکن پھر حمایت کا دعوی کرتے ہیں؛ یہ دعوی مضحکہ خیز ہے۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu

لیبلز