یہ بات ابوالفضل عمویی نے جوہری مذاکرات کے حوالے سے ایرانی پارلیمنٹ کے اجلاس سے صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ مذاکراتی ٹیم اس بات پر زور دیا ہے کہ معاہدے کے استحکام کے لیے ایرانی سیف گارڈ کیس کو بند کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہاکہ آج اس ملاقات میں ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی ، وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان، مذاکراتی ٹیم کے سربراہ علی باقری کنی اور ایٹمی توانائی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے شرکت کر کے تفصیلات پر تبادلہ خیال کیا.
عمویی نے کہا کہ سب سے اہم بات پابندیوں کو ہٹانے کے لیے اسٹریٹجک اقدام کے قانون کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نمائندوں نے اس بات پر یقین ہےکہ ہمیں یہی راستے کو جاری رکھنا چاہیے۔
انہوں نے مذاکرات کے اہداف کے کلیدی نکتہ کو ایرانی قوم کا اقتصادی فائدہ ہے اور اقتصادی فائدے کا مطلب یہ ہے کہ ایران کی غیرملکی تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہو جائیں اور تیل کی فروخت پر عائد غیر قانونی پابندیاں ہٹا دی جائیں۔ ہمیں اپنے عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تیل کی فروخت کے وسائل تک بھی رسائی حاصل کریں۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے دو نئے موضوع ضمانت اور دیانتداری ہے۔ اس وقت غور کیے جانے والا معاہدہ 2015 کے معاہدے کو بحال کرنے کے لیے مشترکہ کمیشن کا فیصلہ ہے۔ امریکہ کے غیر قانونی انخلاء سے اس معاہدے کا خاتمہ کیا گیا اور آخر کار ایران نے اپنی ذمہ داریوں کی کمی شروع کر دی۔اس لیے اگر ہم 2015 کے حالات کی طرف لوٹنا چاہیں تو اس بات کی ضمانت ہونی چاہیے کہ وہ فریق جو ایران کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی کام کرنا چاہتے ہیں پابندیوں سے متاثر نہیں ہوں گے۔