ارنا رپورٹ کے مطابق، "حسین امیر عبداللہیان" نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے تہران میں سفیر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ بہت جلد تہران میں آئیں گے اور کویت نے بھی ایران میں تعینات ہونے والے اپنے سفیر کا تعارف کیا ہے اور ہم نے اس بات سے اتفاق کیا ہے اور آئندہ چند دنوں میں کویتی سفیر تہران میں آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سعودی عرب سے 5 دور کے مذاکرات کیے جو اکثر سلامتی کے شعبے میں تھے اور ان 5 دور کے مذاکرات میں پیشرفت دیکھنے میں آئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حج تمتع کے انعقاد کے حوالے سے بھی معاہدے کیے گئے اور مجموعی طور پر ہم نے اس سال اچھا حج دیکھا۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہمیں گزشتہ ہفتے کے دوران، عراقی وزیر خارجہ کیجانب سے ایک پیغام وصول ہوا جس میں سعودی عرب نے اس بات پر تیاری کا اظہار کیا تھا کہ ایران سے سلامتی کے مذاکرات سیاسی اور کھلے مذاکرات کے مرحلے میں داخل ہوجائیں؛ جن کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے سفارتکاری تعلقات کی بحالی ہوجائے گی۔
انہوں نے شہید جنرل سلیمانی کے قتل کیس کی تازہ ترین صورتحال سے متعلق کہا کہ سردار سلیمانی کا قتل؛ ایسا مسئلہ نہیں جس کو فراموش کیا جاسکے اور یہ مسئلہ اتنا ہم ہے کہ روسی صدر پیوٹین نے اپنے حالیہ دورے ایران کے موقع پر قائد اسلامی انقلاب اور ایرانی صدر سے اپنی ملاقاتوں میں جنرل سلیمانی کی اہم پوزیشن پر تبصرہ کیا اور کہا کہ وہ امریکیوں کے کچھ اقدامات کو نہیں سمجھتے اور ان کے کچھ اقدامات کا کوئی جواز نہیں ہے، بشمول وہ جرم جنہوں خطے میں اہم کردار ادا کرنے والے شخص جنرل سلیمانی کے خلاف کیا تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات پر زوردیا کہ ہم سفارتکاری شعبے میں جنرل سلیمانی کے خون کا بدلنے لینے کو تمام قانونی اور سیاسی پہلوؤں میں اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ مائیک پمپیئو نے اپنے تحفظ کیئے 2 ارب ڈالر خرچ کیا ہے کیونکہ وہ جنرل سلیمانی کے قتل میں ملوثین میں سے ایک ہے اور ہمارے حالیہ مذاکرات میں امریکی فریق نے ثالثوں کے ساتھ معاہدے کی صورت میں اس حوالے سے اپنے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کی، جسے سختی سے مسترد کر دیا گیا جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جنرل سلیمانی کی شہادت کا مسئلہ جاری ہے جس کا قانونی اور بین الاقوامی میدان میں تعاقب کرکے سرانجام تک پہچنچا جاتا ہے۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ تیرہویں حکومت کی خارجہ پالیسی کا جوہری معاہدے پر نقطہ نظر یہ ہے کہ حکومت کو بغیر جوہری معاہدے پر منحصر ہونے سے پائیدار اقتصادی ترقی کے منصوبوں پر عمل کرنا ہوگا اور محکمہ خارجہ کو بھی پائیدار اقتصادی ترقی کے منصوبوں پر عملی جامہ پہنانے کی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ دوسری طرف سے محکمہ خارجہ کو پابندیوں کی منسوخی کیلئے مذاکرات کی میز پر بیٹھنی ہوگی اور یہ مذاکرہ نہیں بلکہ ایک مہم ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اب ہم ایک ایسے موڑ پر ہیں جہاں ہمارے سامنے ایک تیار کیے گئے متن موجود ہے جو تمام فریقین جس کے 95 فیصد سے زیادہ سے متفق ہیں، لیکن اس متن میں اب بھی ایک اہم خامی ہے، وہ یہ ہے کہ ہمیں معاہدے کے مکمل معاشی فوائد سے مستفید ہونی ہوگی۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہم ایک ہی سوراخ سے دو بار کاٹنا نہیں چاہتے ہیں اور امریکہ کو ایران کے جوہری معاہدے کے مکمل معاشی ثمرات ملنے کیلئے وعدوں اور ضمانتوں کو قبول کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ بین الاقوامی قرارداد میں ضمانت دینے کا کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ قرارداد طے پانےکا مقصد اس پر عمل درآمد ہے نہ کہ اس کو بالائے طاق رکھ کے اس پر عمل نہ کریں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم ایک اچھے اور پائیدار معاہدے کے حصول کیلئے سنجیدہ عزم رکھتے ہیں، لیکن کسی بھی قیمت پر معاہدہ نہیں کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے مذاکرات کا سلسلہ یورپی یونین کے اور دیگر بیرونی وزرا کے ذریعے پیغامات کے تبادلہ سے جاری ہے؛ ہم ایک پائیدار اور طاقتور معاہدے کے حصول کے خواہاں ہیں۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu