ان خیالات کا اظہار سنیٹر"سراج الحق" نے پیر کے روز ارنا نمائندے کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ انتہا پسند یہودیوں کی مسلمانوں کے قبلہ اول کی مسلسل جارحیت اور توہین اور فلسطینی عوام پر جبر نے پورے عالم اسلام کے دلوں کو زخمی کر دیا ہے اور اس حوالے سے مسلم حکمرانوں بالخصوص مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستوں کی خاموشی، بہت افسوسناک ہے۔
سنیٹر سراج الحق نے دوہری پاکستانی شہریوں پر مشتمل ایک امریکی وفد کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے متنازعہ دورے کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا کہپاکستان میں کچھ عناصر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے پروگرام کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ پاکستان کو فلسطینی عوام کے قاتلوں سے دوستی اور سمجھوتہ کے جال میں پھنسانا چاہتے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان نے مزید کہا کہ ہم حکومت اور ملک کے فیصلہ ساز اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل سے تعلقات کو معمول پر لانے کے بارے میں سوچنے کی بھی جرأت نہ کریں کیونکہ پاکستانی عوام اس سازش کے خلاف متحد ہیں اور بیرونی دباؤ اور اندرونی عناصر کی خفیہ کارروائیوں کے سامنے ہتیھار نہیں ڈالیں گے۔
انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کو فلسطینی عوام کے حقیقی محافظ قرار دیتے ہوئے صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی سازش کی مخالفت کی اور کہا کہ پاکستان کی جماعت اسلامی دیگر مسلم اقوام کے ساتھ مل کر فلسطینی قوم کو تسلیم کرنے کی شدید مخالفت کرتی ہے اور ہم پاکستان میں اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نے خطے کے بعض عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی مذمت کرتے ہوئے مزید کہا کہپاکستانی حکومت کی 75 سالہ پالیسی فلسطین کی بھرپور حمایت اور غاصب صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے نہ پر مبنی ہے۔ لہٰذا اگر پاکستان میں تل ابیب کے ساتھ منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کی کوئی کوشش کی گئی تو حکومت کو پاکستان کے عوام اور سیاسی و مذہبی قوتوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ حکومت کو ان پاکستانیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور سزا دینی ہوگی جنہوں نے حال ہی میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا سفر کیا ہے کیونکہ یہ فلسطین کی حمایت اور قابضین سے دوستی کے خلاف اقدام ہے۔
واضح رہے کہ امریکی وفد کے چند پاکستانی شہریوں کی موجودگی میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا حالیہ دورہ اور صہیونی رہنما سے ملاقات نے پاکستان میں شدید ردعمل کو ہوا دی اور بہت سے فلسطینی سیاسی، مذہبی رہنما اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ناراض کیا۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@