ارنا رپورٹ کے مطابق، ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر "زہرا ارشادی" نے منگل کی سہ پہر کو عالمی صحت اور خارجہ پالیسی کے عنوان کے تحت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا اور متعلقہ شعبوں میں ٹیکنالوجی اور سائنس کی منتقلی کو یقینی بنانا، بغیر صحت کے نظام کی مضبوطی کے ممکن نہیں ہوگا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی سفارتکار نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سستی صحت کی خدمات تک رسائی اور ضروری، معیاری، محفوظ، موثر ادویات، ویکسین، تشخیصی صحت کی ٹیکنالوجیز بغیر کسی امتیاز یا سیاسی تحفظات کے تمام ممالک کے لیے دستیاب ہونی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ معیاری اور سستی صحت کی دیکھ بھال تک عالمی رسائی کی ضرورت بین الاقوامی ترقی کے لیے ایک اہم ترجیح ہے، اور صحت کے مسائل کو مخصوص سیاسی جماعتوں کے مفادات تک محدود نہیں ہونا ہوگا۔
ارشادی نے کہا کہ جیسا کہ دنیا کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے، اور ہم اس اصول کی حمایت کرتے ہیں کہ عالمی صحت میں ترقی کا انحصار بنیادی طور پر بالخصوص عالمی بحرانوں کے دوران، بین الاقوامی شراکت داری اور کثیر جہتی تعاون پر ہے؛ تاہم، ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ اور چند دوسرے ممالک جو آنکھیں بند کر کے اس کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں، غیر انسانی یکطرفہ جبر کے اقدامات (UCMs)، بشمول متعدد ممالک پر غیر قانونی اور جابرانہ اقتصادی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں، جن میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جو وبا کے سنگین نتائج سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ میں ایرانی مشن کی نائب خاتون سربراہ اور سفیر نے امریکہ کی طرف سے اٹھائے گئے یکطرفہ اورہ جابرانہ اقدامات ایرانی عوام کے صحت اور ضروری ادویات اور طبی آلات تک رسائی کے حق کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کا دعوی ہے کہ یکطرفہ جبر کے اقدامات میں خوراک اور ادویات شامل نہیں ہیں، لیکن درحقیقت پابندیوں اور ان خریداریوں سے متعلق مالیاتی منتقلی کے لیے بین الاقوامی بینکنگ سسٹم سے ممالک کے اخراج کی وجہ سے، ان اشیاء تک رسائی ممکن نہیں ہے اور ان اقدامات کا دائرہ ان اشیا تک بھی پھیلا ہوا ہے۔
ارشادی نے کہا کہ اس کے باوجود ایران نے امریکہ کے سامنے سرنہیں جھکاکر اپنے قومی صلاحیتوں پر بھروسے کر کے کووڈ- 19 کی روک تھام میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی اور ملک کیخلاف شدید اقتصادی دباؤ اور معاشی پابندیوں کے باوجود اس نے افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کی بخوبی میزبانی کی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود، کئی سالوں میں، بین الاقوامی عطیہ دہندگان کی طرف سے ان خدمات کی فراہمی کی بہت کم لاگت مختص کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر ارشادی نے کہا کہ جبکہ ہم اس طرح کی خدمات کی فراہمی جاری رکھنے کے لیے پُرعزم ہیں، لیکن بین الاقوامی برادری کی جانب سے مناسب اور مستقل مالی امداد کی عدم موجودگی میں، لاکھوں افغانوں کو اس طرح کی سہولیات کی فراہمی جاری نہیں رہ سکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج تک، ہم نے اس میدان میں اپنے حصے سے بہت زیادہ مدد کی ہے اور کیا ہے، اور اب یہ بین الاقوامی برادری ہے جسے یکجہتی کے اصول کی بنیاد پر اس میدان میں اپنے عہد کو پورا کرنا ہوگا۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@.