تہران (ارنا) رہبر انقلاب اسلامی ایران نے اس سوال کے جواب میں کہ ایران امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر کیوں آمادہ نہیں ہے، کہا کہ امریکہ (انقلاب اسلامی سے پہلے) ایران پر قابض تھا لیکن اسے اس کی گرفت سے نکال لیا گیا۔ اس لیے ایران اور انقلاب سے اسے "کینہ شتری" (اونٹ جیسا کینہ) ہے اور وہ اتنی آسانی سے ہار نہیں مانے گا۔ امریکہ ایران میں ناکام ہو چکا ہے اور اپنی اس ناکامی کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

 رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بدھ 8 جنوری کو قم میں ہزاروں افراد کے ساتھ ایک ملاقات میں پہلوی دور میں ایران کو امریکی مفادات کا گڑھ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انقلاب کا سرچشمہ اس قلعہ کے دل سے پھوٹا اور امریکیوں کو سمجھ نہیں آئی، امریکی دھوکہ کھا گئے، وہ سوئے رہے، غافل رہے، امریکیوں کی یہ حسابی غلطی ہے۔

اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اس کے بعد سے لے کر آج تک ان چند دہائیوں کے دوران امریکیوں نے ایران کے مسئلہ میں اکثر غلطیاں کی ہیں اور غلط اندازے لگائے ہیں، انہوں نے تاکید کی کہ میری اس بات کے مخاطب زیادہ تر وہ سامعین ہیں جو امریکی پالیسیوں سے مرعوب ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دشمن کی پروپیگنڈہ میڈیا وار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا پروپیگنڈہ کا کام جھوٹ بولنا اور حقیقت اور رائے عامہ کے افکار کے درمیان فاصلہ رکھنا ہے۔ آپ مضبوط ہو رہے ہوں، وہ شور کرتا ہے، آپ کمزور ہو رہے ہیں، وہ کمزور ہو رہا ہے، مگر پبلسٹی کرتا ہے کہ وہ مضبوط ہو رہا ہے۔ تم ناقابل تسخیر ہو جاؤ، وہ کہتا ہے میں تمہیں دھمکیاں دے کر تباہ کر دوں گا! یہ پروپیگنڈہ ہے جس سے کچھ لوگ متاثر ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج ہمارے تبلیغی اور ثقافتی اداروں، براڈکاسٹنگ منسٹری (ریڈیو و ٹیلیوژن) اور سائبر اسپیس ورکرز کا بنیادی اور اہم کام دشمن کی حاکمیت کے جھوٹے بھرم کے راز فاش کرنا ہے، اسے توڑنا ہے، دشمن کے پروپیگنڈے کو ناکام بنانا ہے تاکہ وہ رائے عامہ پر اثرانداز نہ ہوسکیں، یہ وہ کام ہے جو اسوقت قم والوں نے کیا تھا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ امریکہ کے ساتھ نہ مذاکرات پر آمادہ ہیں اور نہ ہی بات چیت پر تیار ہیں، یورپی ممالک بھی امریکہ کی طرح ہیں، کیا فرق ہے؟ آپ نے ان سے تعلق کیوں رکھا، جیسا کہ ان کے سفارت خانہ ہیں، امریکہ کا بھی سفارت خانہ رکھنا چاہیے، بالکل نہیں! فرق یہ ہے کہ یہاں امریکہ نے قبضہ کیا تھا، اسے اس کے تسلط سے نکالا گیا، اس کی ایران اور انقلاب سے نفرت "کینہ شتری" (اونٹ کا کینہ) جیسی نفرت ہے، وہ آسانی سے ہار نہیں مانے گا، امریکہ یورپی ممالک سے مختلف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں یورپی ممالک ایرانی عوام کے وفادار دوست نہیں ہیں، لیکن یہ اس سے بہت مختلف ہے، امریکہ نے اسلامی انقلاب کے ساتھ ایک بہت بڑی دولت، ایک بہت بڑا سیاسی اور اقتصادی خزانہ کھو دیا ہے اور پھر اس نے ان چالیس سال میں ایران کو اسلامی انقلاب سے چھڑانے اور دوبارہ اپنے کنٹرول میں لانے میں بہت محنت کی مگر ناکام رہا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکی بغض ایک دوسرے ممالک کی رنجش سے مختلف بلکہ بہت مختلف ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے درمیان فرق کرنے کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ ایران میں ناکام ہو چکا ہے، اور وہ اس ناکامی کا ازالہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس لیے وہ ہر طرح سے دشمنی کر رہا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ پالیسیوں میں، مثال کے طور پر، ملکی معیشت کی %8 نمو (پیش گوئی) ہے، تو بعض لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے! لیکن صدر ایران ایگزیبیشن آف اکنامک ایکٹیوسٹ میں گئے، وہاں ماہرین نے نہ صرف کہا بلکہ ثابت کیا کہ ہم بیرونی ممالک کے بغیر 8٪  فیصد ترقی دے سکتے ہیں۔ اور صدر نے انکی ہی بات دہرائی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ثقافتی اور اقتصادی مسائل، افراط زر، پیداوار، کرنسی کے مسائل اور حجاب کے مسائل کے بارے میں فیصلہ کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہ امریکی مطالبات اور امریکی موقف کو اہمیت دیں اور نہ ہی صیہونیوں کے موقف پر کان دھریں، وہ صرف ملکی مفادات اور اسلامی جمہوریہ بنانے کے مفادات کا خیال رکھیں۔

انہوں نے صیہونی حکومت کے بارے میں صدر ایران کے دو ٹوک موقف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خوش قسمتی سے صیہونی حکومت کے بارے میں ہمارے محترم صدر کے بے باک اور جرأت مندانہ موقف نے عوام کو خوش کیا، انہوں نے صیہونی حکومت اور امریکہ کی حرکات و سکنات دونوں کے بارے میں واضح اور فیصلہ کن موقف اختیار کیا جو بہت اچھا ہے۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے، اس معاملے میں ملکی حکام کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ وہ ان لوگوں کے مطالبات کو تسلیم نہ کریں جو ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ کے دشمن ہیں اور ایران کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے دنیا کے کسی بھی خطے میں صیہونی ظلم کے خلاف مزاحمت پر ایران کی حمایت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمت زندہ ہے اور نہ صرف زندہ رہے گی بلکہ روز بروز مضبوط ہوگی، اور ہم مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں، غزہ میں مزاحمت، مغربی کنارے کی مزاحمت، لبنان میں مزاحمت، یمن میں مزاحمت، ہر اس جگہ جہاں خبیث صیہونی حکومت کی بدنیتی پر مبنی ظلم پر مزاحمت ہوگی، ہم اس کی حمایت کریں گے۔