اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اقوام متحدہ میں اپنی تقریر میں زور دیا ہے کہ عالمی برادری کو فوری طور پر تشدد ختم اور مستقل جنگ بندی قائم کرنا اور پورے علاقے اور دنیا میں آگ لگنے سے قبل لبنان میں صیہونی حکومت کی بربریت کو روکنا چاہیے۔
صدر ایران نے کہا کہ گزشتہ چند روز کے دوران اندھا دھند دہشت گردانہ کارروائیوں اور لبنان کے خلاف وسیع جارحیت کا جواب ضرور دیا جائے گا جس میں ہزاروں بے گناہوں کا قتل ہوا ہے اور اس کے انجام کی ذمہ داری ان ملکوں پر ہے جو اس المیہ کے خاتمے کی کوششوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہيں اور اب بھی خود کو انسانی حقوق کا محافظ قرار دیتے ہيں۔
صدر کی تقریر کے اہم نکات یوں ہیں:
- میں انپے ملک کے نئے دور میں داخلے، ابھرتے عالمی نظام میں تعمیری اور موثر کردارادا کرنے، رکاوٹوں اور چیلنجوں کو دور کرنے اور تعلقات کو عصری تقاضوں اور حقائق کے مطابق بنانے کے لئے ٹھوس بنیادیں قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
- دنیا کے لوگوں نے پچھلے ایک سال میں اسرائیلی حکومت کی فطرت دیکھی ہے۔ انہوں نے دیکھا ہے کہ اس حکومت کے رہنما کس طرح جرائم کرتے ہیں اور انہوں نے 11 ماہ میں غزہ میں 41 ہزار سے زائد بے گناہ لوگوں کو قتل کیا جن میں زیادہ تر معصوم خواتین اور بچے تھے۔ لیکن نسل کشی، شیر خواربچوں کے قتل، جنگی جرائم اور ریاستی دہشت گردی کووہ ’’جائز دفاع‘‘ کا نام دیتے ہيں! اسپتالوں، کنڈر گارڈن اور اسکولوں کو "قانونی فوجی اہداف" قرار دیتے ہيں۔
- اس نسل کشی کے خلاف دنیا کے مشرق و مغبر میں احتجاج کرنے والےحریت پسندوں اور بہادر لوگوں کو "یہودی دشمن" کا خطاب دیتے ہيں۔
- یہ اسرائیل ہی ہے جس نے ہماری سرزمین میں ہمارے سائنسدانوں، سفارت کاروں اور مہمانوں کو قتل کیا ہے اور داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی خفیہ اور کھلم کھلا حمایت کی ہے۔ دوسری جانب ایران نے آزادی پسند اور عوامی تحریکوں کی حمایت کی ہے جو چار نسلوں سے اسرائیلی حکومت کے جرائم اور استعمار کا شکار ہیں۔
- ہم آپ کے ممالک کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، جو اسرائیل کے اقدامات کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں، اور ہم انسانیت کے خلاف جرم کی مذمت کرتے ہیں۔
- مغربی ایشیا اور دنیا میں عدم تحفظ کے 70 سالہ ڈراؤنے خواب کو ختم کرنے کا واحد راستہ فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی بحالی ہے۔
- ایران نے کبھی کوئی جنگ شروع نہیں کی اور دوسروں کی جارحیت کے خلاف صرف بہادری سے اپنا دفاع کیا اور جارحین کو پشیمان کیا!
- ایران نے کسی قوم کی سرزمین پر قبضہ نہیں کیا، کسی ملک کے وسائل پر نظر نہیں ڈالی اور کئی بار خطے میں دیرپا امن اور استحکام کے لیے پڑوسیوں اور بین الاقوامی اداروں میں مختلف تجاویز پیش کیں۔
- ہم نے خطے کو متحد کرنے اور ایک "مضبوط خطہ" بنانے کی ضرورت پر بات کی ہے۔ "متحدہ اور مضبوط خطہ" کئی اصولوں پر مبنی ہے:
- سب سے پہلے یہ مان ہوگا کہ ہم پڑوسی ہیں اور پڑوس کی وجہ سے ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ خطے میں بیرونی طاقتوں کی موجودگی عارضی اور عدم استحکام کا باعث ہے۔ دوسری بات یہ کہ خطے کا نیا نظام جامع ہونا چاہیے اور اس سے تمام پڑوسیوں کو فائدہ ہونا چاہیے۔ تیسری بات یہ کہ ہمسایہ اور برادر ممالک اپنے قیمتی وسائل کو دشمنی اور ہتھیاروں کی دوڑ میں ضائع نہ کریں۔
- میں ایک ایسے ملک کا صدر ہوں جسے اپنی عصری تاریخ میں کئی بار دھمکیوں، جنگوں، قبضوں اور پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ دوسرے کبھی ہماری مدد کو نہیں آئے، ہمارے غیرجانبداری کے اعلان کو نظر انداز کیا اور یہاں تک کہ حملہ آور کی ہی مدد کی ہے۔ ہم نے تجربے سے سیکھا ہے کہ ہم صرف اپنے عوام اورملکی صلاحیتوں پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔
- اسلامی جمہوریہ ایران دوسروں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
- ہم سب کے لیے امن چاہتے ہیں اور ہم کسی سے لڑنا نہیں چاہتے۔
- ہم یوکرین اور روس کے لوگوں کے لیے دیرپا امن اور سلامتی چاہتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے جنگ کی مخالفت کرتے ہوئے اور یوکرین میں فوجی تنازعات کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ہر قسم کے پرامن حل کی حمایت کی ہے اورایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس بحران کو صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔
- جے سی پی او اے سے ٹرمپ کی یکطرفہ دستبرداری نے سیاسی میدان میں دھونس اور اقتصادی میدان میں طاقت پر مبنی نقطہ نظر کو واضح کر دیا۔
- ایرانی قوم کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی استعمال کی گئی جبکہ ایران نے جے سی پی او اے میں اپنے تمام وعدوں پر عمل کیا جیسا کہ آئے اے ای اے کی طرف سے اس کی تصدیق کی گئی۔
- ہم جے سی پی او اے کے اراکین کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ اگر جے سی پی او اے کے وعدوں پر پوری طرح اور نیک نیتی سے عمل درآمد کیا جائے، تو دوسرے مسائل پر بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔
- میں امریکی عوام سے کہہ رہا ہوں: یہ ایران نہیں ہے جس نے آپ کی سرحدوں کے پاس فوجی چھاونیاں بنائی ہيں۔
- یہ ایران نہیں ہے جس نے آپ کے ملک پر پابندیاں لگائی ہیں اور دنیا کے ساتھ آپ کے تجارتی تعلقات میں رکاوٹ پیدا کی ہے۔ یہ ایران نہیں ہے جو آپ کو ادویات تک رسائی سے روکتا ہے۔ یہ ایران نہیں ہے جس نے دنیا کے بینکنگ اور مالیاتی نظام تک آپ کی رسائی روک دی ہے۔ ہم آپ کے فوجی کمانڈروں کو قتل نہیں کرتے بلکہ امریکہ نے ایران کے سب سے زیادہ مقبول فوجی کمانڈر کو بغداد کے ہوائی اڈے پر قتل کیا ہے۔
- ان تمام حکومتوں کے لیے جنہوں نے ایران کے خلاف غیر تعمیری حکمت عملی اپنائی ہے میرا پیغام یہ ہے کہ وہ ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ہم ان حدود سے باہر نکل کر ایک نئے دور کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اس نئے دور کا آغاز ایران کے سیکورٹی خدشات کو تسلیم کرنے اور مشترکہ مسائل پر مشترکہ کام سے ہوگا۔
- اہم ادویات تک رسائی نہ ہونے دینا نہ صرف انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ یہ انسانیت کے خلاف جرم بھی ہے۔
- گزشتہ برسوں میں، ہماری قوم نے ثابت کیا ہے کہ وہ پابندیوں کی وجہ سے ہونے والی بہت سی مشکلات کو برداشت کرکے ظلم کے خلاف کھڑی ہے۔
- پابندیوں نے ہمیں فولادی عزم اور خود اعتمادی کے ساتھ ایک مضبوط قوم بنا دیا ہے۔
- ایران ایک بہتر دنیا کی تعمیر کے لیے عالمی طاقتوں اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ موثر و مساوی اقتصادی، سماجی، سیاسی اور سیکورٹی تعلقات کے لیے تیار ہے۔ ایران کی طرف سے بھیجے گئے ایسے پیغام کا مناسب جواب مزید پابندیاں عائد کرنا نہيں ہے۔