ارنا کے مطابق " اقوام متحدہ کے اہداف کی تقویت کے زیر عنوان منعقدہ نشست سے صدر ایران کے خطاب کے اہم ترین محور یہ ہیں؛
صدر ایران نے کہا کہ ہم ایٹمی اسلحے سے پاک دنیا اور مشرق وسطی کو غیر مشروط طور پر اجتماعی قتل عام کے اسلحے سے پاک علاقہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر پزشکیان نے کہا کہ " ہم دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ملک کے عنوان سے ، ہمیشہ اس لعنت کے خلاف جدوجہد میں پیش پیش رہے ہیں اور ان ملکوں کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہیں جو حقیقی معنی میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ " ایران اپنے علاقے کو مضبوط، متحد، پر امن اور با ثبات دیکھنا چاہتا ہے جس میں علاقے کے سبھی ملکوں کے ذخائر سے باہمی اقتصادی وسماجی پیشرفت اور مشترکہ مشکلات دور کرنے کے لئے کام لیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ جس دنیا میں غزہ کے غیر فوجی عام شہری بے دردی کے ساتھ قتل کئے جارہے ہیں،، اندھی ریاستی دہشت گردی میں بچے اور خواتین خاک و خون میں غلطاں ہورہی ہیں اور نسل کشی نیز دہشت گردی کی حمایت کی جارہی ہے، اس میں کوئی بھی دستاویز امن و ترقی کی ضامن نہیں ہوسکتی۔
صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ فلسطین پر ناجائز قبضے اور اپارتھائیڈ کا خاتمہ نیز غزہ میں فوری جنگ بندی عالمی امن و ترقی کے لئے لازمی ہے۔
انھوں نے کہا کہ امن و ترقی کے حصول کے لئے ملکوں کی ترقی کے حق کا احترام اور ترقی یافتہ ملکوں کی جانب سے ترقی پذیر ملکوں کے تعلق سے عدل و انصاف کی اصولوں کی پابندی نیز ترقی کی ترجیحات اور ثقافتی خصوصیات پر توجہ کی ضرورت ہے۔
صدر ایران کا کہنا تھا کہ خودسرانہ پابندیوں نے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کو ناممکن بنادیا ہے ۔ یہ حقیقت ہر اس دستاویز میں شامل ہونی چاہئے جو مستقبل کے لئے تیار کی جائے ۔
انھوں نے کہا کہ " میری تجویز یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پابندیوں کی بھینٹ چڑھنے والے ملکوں کی مشارکت سے ایک جامع رپورٹ تیار کریں اور اس کو جنرل اسمبلی میں پیش کریں ۔
صدر ایران نے کہا کہ ہم بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر حکمرانی کے ڈھانچے میں فوری طور پر ایسی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ جس سے منصفانہ ڈھانچہ تیار ہو اور اس کے فیصلوں میں ترقی پذیر ممالک بھی شریک ہوں اور یہ ادارہ ان ملکوں کی مالی مشکلات حل کرنے پر قادر ہو۔
انھوں نے کہا کہ انٹرنیٹ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی انتظامیہ میں جنوب کے ملکوں کی مشارکت ضروری ہے اور اسی کے ساتھ ملکوں کے ملی قوانین کا احترام نیز اجارہ داری کا مقابلہ نا قابل انکار ضرورت ہے۔