علی بحرینی نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی کانفرنس کی مقدماتی کمیٹی کی نشست میں اس معاہدے کے اہداف میں پیش رفت نہ ہونے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: اسلحہ جاتی پروگرام اور پالیسیوں نیز کچھ ایٹمی ممالک خاص طور پر امریکہ میں ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر کے پیشن نظر، نہ صرف یہ کہ ہم اس معاہدے کے اصل مقصد سے قریب نہیں ہوئے ہيں بلکہ سن 1970 کے مقابلے میں مزید دور ہی ہو گئے ہيں۔
اس نشست میں ایرانی وفد کے سربراہ نے کہا کہ معاہدے کے اہداف خاص طور پر ایٹمی تخفیف اسلحہ میں پیش رفت نہ ہونے کی بنیادی وجہ یک طرفہ پالیسیاں ہيں خاص طور پر امریکہ کے یکطرفہ اقدامات اور پروگرام، این پی ٹی کے مستقبل اور ایٹمی اسلحے سے پاک دنیا کے مقصد کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہيں۔
انہوں نے زور دیا کہ جب تک ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کی یہ جوہری پالیسیاں اور پروگرام جاری رہیں گے اور زیادہ سے زیادہ ممالک نیٹو کے ایٹمی ہتھیاروں کے سہارے رہيں گے ، دنیا میں ایٹمی تخفیف کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہو گی اور ہمیں ایٹمی ہتھیاروں میں وسیع پھیلاؤ دیکھنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
بحرینی نے بھی ایران کی جانب سے معاہدے کے اہداف کی پابندی اور ایران کے ایٹمی پروگرام کے پر امن ہونے پر زور دیتے ہوئے صیہونی حکومت کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو جوہری ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا اور کہا: صیہونی حکومت کے ایٹمی ہتھیار خطے اور دنیا کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
اس اجلاس میں صیہونی حکومت کے ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے اور معاہدے سے باہر اس حکومت کی جوہری تنصیبات پر شدید تنقید کی گئی اور اس حکومت سے غیر مشروط طور پر ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا رکن بننے کو کہا گیا۔